• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سر تاج عزیز نے منگل کے روز پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) میں جو پالیسی بیان دیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک آرمی کے سابق سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف سعودی عرب میں تاحال کسی فوج کی قیادت نہیں کررہے ہیں، مجوزہ اتحادی فوج نہ اب تک بنی ہے اور نہ ہی ٹرمز آف ریفرنس کو حتمی شکل دی گئی ہے،جب مذکورہ اتحاد کے حوالے سے شرائط کار سامنے آئیں گی تو ان کے بارے میں پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائیگا۔ ایوان بالا میں پیش کی گئی ایک تحریک اور سنیٹرز کے سوالات کے جواب میں مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس باب میں پاکستانی پارلیمنٹ جو پالیسی وضع کرے گی اس پر عمل کیا جائے گا۔ سر تاج عزیز کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف کو مشاورتی کردار دیا گیا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اور اراکین نے اس ضمن میں جو سوالات اٹھائے وہ ایسے بہرحال نہیں ہیں کہ سرسری طور پر لئے جائیں۔ سعودی عرب وہ ملک ہے جہاں حرمین شریفین واقع ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان کسی مسلکی تفریق کے بغیر اپنے ان مقدس مقامات کے تحفظ اور تقدس کے لئے ہر دم سینہ سپر ہیں مگر خطے میں رونما ہونے والے واقعات اور مسلم اکثریت کے حامل ملکوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کی کئی عشروں سے جاری کوششیں ایسے مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں جن کے پیش نظر پاکستان اور سعودی عرب ہی نہیں ایران، ترکی، قطر، یمن اور مصر سمیت تمام ملکوں کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ پوری طرح چوکنا رہیں اور ایک دوسرے کے دست و بازو اس طور پر بنیں کہ انکے اشتراک و اتحاد میں مسلک اور فرقے کا رنگ نمایاں نہ ہو بلکہ اسلام اورمسلمانوں کے عزت و وقار کے لئے یکجائی کا واضح اظہار ہو۔ منگل کے روز ایوان بالا میں چیئرمین رضا ربانی اور دیگر سینیٹرز اس بات پر حیران نظر آئے کہ ٹرمز آف ریفرنس بنے بغیر ایک فوج کی تشکیل، اس کے سربراہ کے تقرر اور تعیناتی کے مرحلے طے ہوگئے۔ ایوان بالا کے ارکان کی طرف سے کئے گئے سوالات اور تبصروں سے ایک زیادہ موثر خارجہ پالیسی کی ضرورت اجاگر ہوئی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اپنی اپنی ملکی و قومی ضروریات اور سلامتی کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر خارجہ حکمت عملی بناتے اور وقتاً فوقتاً اس پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف سطحوں پر یہ کام جاری رہتا ہے مگر خطے اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خارجہ پالیسی کو زیادہ حقیقت پسندانہ بنانے کی ضرورت سے اب بھی انکار ممکن نہیں۔ اسلام آباد ایک طرف مسلم ملکوں کی ترقی اور استحکام کے لئے ان میں یگانگت پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہا ہے تو دوسری طرف بعض ممالک کے منفی طرز عمل کے باوجود افہام و تفہیم سے خطے کو کشیدگی سے پاک کرنے کے لئے سرگرداں ہے۔ تیسری جانب وہ دنیا بھر کے امن پسند ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے اور کرہ ارض کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں شریک ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ’’ریڈیکل اسلامک ٹیرر ازم‘‘ کے خلاف کارروائی کا نام دیدیا گیا ہے۔ مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر کئی مسلم ممالک کو خون میں نہلایا جا چکا ہے۔ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے خلاف استعمال کے لئے امریکہ سے بڑے پیمانے پر اسلحہ خرید رہے ہیں، واشنگٹن کی طرف سے ایران پر معاشی پابندیاں پھر سے لاگو کی جارہی ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کنٹرول لائن پر گولہ باری میں اضافہ ہوچکا ہے، تل ابیب کی طرف سے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ بڑھ چکا ہے، مسلم ممالک میں داعش نامی تنظیم کے بیرونی ایجنٹوں کو داخل کیا جارہا ہے اور مقامی طورپر بھی تحریص و ترغیب کے ذریعے دہشت گرد تیار کئے جارہے ہیں۔ اس منظر نامے میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مسلم ممالک اپنی مشترکہ بقا کے لئے مل بیٹھ کر حکمت عملی بنائیں اور ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں۔ جہاں تک مسلم اتحادوں کا تعلق ہے، ان میں مسلکی و دیگر اختلافات سے بالا ہوکر مسلم اکثریت والے تمام ممالک کو شامل کیا جانا چاہئے۔ بصورت دیگر انتہائی منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین