اسلام آباد(نمائندہ جنگ،نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ سیل ) سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پر کرپشن یا عہدے کے غلط استعمال کا کوئی الزام نہیں، اسحق ڈار ملزم تھے اور مبینہ طورپراعترافی بیان کی بنیاد پر انہیں معافی ملی، آپ کو تمام پتے شو کروانے تھے، کرپشن نہیں معاملے سے وزیراعظم کا تعلق دیکھنا ہے۔
جبکہ دوران سماعت فاضل جج صاحبان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پوچھ پوچھ کر تھک گئے، شریف خاندان کی منی ٹریل آج تک نہیں آئی،پہلے عبوری حکم تھا، اب فیصلہ ہوگا، دیکھنا ہے کہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے یا ٹرائل کورٹ کوبھجوانا ہے، آپ کو تمام پتے شو کروانا چاہیے تھے،بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کیلئے کب اور کس نے ادائیگی کی؟ فنڈز سعودی عرب دبئی یا قطر میں تھے، سوال یہ ہے کہ فنڈر کیسے لندن پہنچے میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے،یہ جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائیگی، لندن فلیٹس کا مالک کون ہے یہ کوئی نہیں بتاتا، ایک کہتا ہے جائیداد خریدی دوسرا کہتا ہے ورثے میں ملی۔
وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ دبئی، سعودی عرب،دیگر ملکوں سے اہم ریکارڈ منگوالیا ہے۔ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی نے نوازشریف پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا،وزیراعظم کا اعلان شدہ اثاثوں کے سوا کوئی جائیداد نہیں، جے آئی ٹی نے رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی اور قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا، عدالت فیصلے میں احتیاط کرے، اسحق ڈار کو کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت آج صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔بدھ کو جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ گزشتہ روز میں نے وزیراعظم کا جے آئی ٹی میں بیان پڑھ کر سنایا تھا، وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو گوشواروں کی صورت میں آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات دیں لیکن جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثوں سے متعلق سوال نہیں کیا، جے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں، جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی، وزیراعظم کے رشتہ داروں نے کوئی جائیداد نہیں چھپائی جبکہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے، نیب قوانین کے مطابق ایسا شخص جسکے بیوی بچوں کے نام اثاثے ہوں اس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، وزیر اعظم نے ٹیکس ریٹرن میں اثاثے ظاہر کیے ہیں اور انہوں نے کوئی اثاثہ نہیں چھپایا۔
وزیراعظم کے وکیل نے دلائل کے دوران نیب قانون کی شق (5 اے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیب قوانین کے مطابق ایسا شخص جسکے بیوی بچوں کے نام اثاثے ہوں، اسے اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جس نیب قانون کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، وہ تو کیس سے مطابقت نہیں رکھتا۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آمدنی ایک کروڑ اور جائیداد 5 کروڑ کی بنائی ہو تو اسے کیا کہیں گے؟خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قبضے والی جائیداد اگر آمدن سے زائد ہو تو وہ جوابدہ ہوتی ہے،جے آئی ٹی نے وزیراعظم پر جائیداد بچوں کے نام رکھنے کا الزام لگایا ہے،بچوں کی جائیدادیں بے نامی دار کیسے ہوسکتی ہیں؟ جبکہ لندن فلیٹس کے مالک کا نام بھی سامنے آچکا ہے۔
خواجہ حارث کی جانب سے نیب قانون شق (5 اے) کا حوالہ دینے پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے، قانون میں اس شخص کا بھی ذکر ہے جسکے قبضے میں اثاثہ ہو اور اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔
کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کسی دوسرے کے گھر میں کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا، زیر استعمال ہونا اور بات ہے اور اثاثے سے فائدہ اٹھانا الگ بات ہے،آپ کے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، یہ بات ہم مہینوں سے سن رہے ہیں، فلیٹ کی ملکیت کے علاوہ ساری چیزیں واضح ہیں، اس کیس میں سوال 1993 سے اثاثے زیراستعمال ہونے کا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کیس کی نوعیت مختلف ہے،اثاثہ وزیر اعظم کے نام نہیں جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی، قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے بے نامی اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں، لندن فلیٹ کے مالک کا نام سامنے آچکا ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خود کسی بھی پراپرٹی کے مالک ہیں۔
سپریم کورٹ کے معزز جج نے کہا کہ ہم آپ کی بات سمجھتے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پر کرپشن یا عہدے کے غلط استعمال کا کوئی الزام نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ غلطی کہیں یا کوتاہی، نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیداد کا کوئی ذکرنہیں جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا کہ حدیبیہ کیس سے متعلق آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا تھا، آپ اپنے دلائل دہرا رہے ہیں جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد پرانے معاملات ختم ہو چکے، اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں لگائے گئے، لندن فلیٹس کے بارے میں جے آئی ٹی نے نہیں کہا کہ اصل مالک وزیر اعظم ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے بے نامی دار کی تعریف لکھتے وقت قانون میں غلطی ہو گئی ہے، بے نامی دارکی اصل تعریف ہم سب جانتے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر سے انکار نہیں کر رہا، وزیر اعظم کا ذاتی طور پر ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں، خاندان کے دوسرے افراد کی طرح جو معلومات تھیں وہ شیئر کیں، جے آئی ٹی نے کہا فلیٹ پورے خاندان کے ہیں، التوفیق کیس میں شریف فیملی کے ممبر شیئرہولڈر تھے، اسی کیس میں شریف فیملی کے ممبر شیئرہولڈر تھے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حدیبیہ پیپر ملز کے مالکان میں مریم نواز بھی شامل ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کمپنی کے حصص کا فیصلہ میاں شریف کرتے تھے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کب لیے اور کس نے ادائیگی کی، منی ٹریل کہاں ہے، جواب نہیں دیا جارہا، فنڈز سعودی عرب، دبئی یاقطر میں تھے، کہاں سے پیدا ہوکر لندن پہنچے، وزیر اعظم نے کہا انکے پاس تمام دستاویزات میں منی ٹریل موجود ہے، عدالت کوان سوالوں کے جواب نہیں دیئے جا رہے۔
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ عام فیملی ممبرکے طور پر اسمبلی میں بیان دیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کو علم تھا کہ اسمبلی فلورپرکیا کہہ رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے تعلق ہو تو وہ جواب دہ ہو سکتے ہیں، 1993-95 تک بچے اپنے والد کے زیر کفالت تھے، فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف دیکھتے تھے، خاندان کے سربراہ میاں شریف کا سرمایہ کاری کا فیصلہ تھا، یہ جائیداد لندن عدالت میں کیس کے ساتھ منسلک تھی، اس کیس میں میاں شریف، شہباز اور عباس شریف کے نام ہیں۔