• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جتنا جھوٹ یہاں بولا جارہا ہے شاید ہی کہیں اور بولا جارہا ہو۔ یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں ایک جھوٹا دوسرے کو جھوٹا کہہ رہا ہوتا ہے۔ جھوٹ پہ جھوٹ۔ اس پوری واردات میں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ یہ واقعہ آپ کے سامنے پاکستانی سیاست کا ’’چہرہ‘‘ بے نقاب کردے گا۔ واقعہ میں شامل پپو کے کردار کو آپ شیخ رشید والاپپو مت سمجھیں۔ واقعہ یوں ہے..... ’’پپو کا رشتہ دیکھنے مہمان آئے تو انہوں نے کہا کہ پپو کو بلائیں۔ پپو کی ماں کہنے لگی کہ وہ دانت صاف کر رہا ہے کیونکہ اس نے پیاز کھایا تھا۔ پیاز کیوں کھایا تھا؟ مہمان پوچھنے لگے۔ پپو کی ماں کہنےلگی کہ وہ کبھی کبھار شراب پی لے تو پھر پیاز کھا لیتا ہے۔ مہمان مزید حیران ہوئے۔ ان میں سے کسی ایک نے کہا کہ اچھا تو لڑکا شراب بھی پیتا ہے۔ اس پر پپو کی ماں کہنےلگی ویسے تو پپو بہت اچھا ہے مگر کبھی کبھی شراب پی لیتا ہے۔ ایک مہمان نے پوچھا کہ وہ شراب کیوں پیتا ہے؟ پپو کی ماں کہنے لگی کہ ہاں جب کبھی کوٹھے پر گانا سننے جاتا ہے تو اس وقت پی لیتاہے۔ مہمان حیران ہوئے تو مہمانوں میں سے ایک عورت نے کہا، کوٹھے پر بھی جاتا ہے؟ پپو کی ماں بولی بس بہن! جب ڈاکہ مارتا ہے تو پھر کوٹھے پر چلا جاتا ہے۔ ویسے لڑکا بہت اچھا ہے۔ اب ہم اپنے منہ میاں مٹھو کیا بنیں۔ اس پر مہمان عورت کہنے لگی کہ پپو ڈاکے کے دوران کبھی پکڑا نہیں گیا؟ پپو کی ماں بتانے لگی۔ نہ بہن! اس کا نشانہ بڑا زبردست ہے۔ ایسی نوبت آئے تو گولی چلا کر اگلے کو بھون کے رکھ دیتا ہے۔ اس نے ایسے مواقع پر کئی افراد قتل کئے مگر میں آپ کو بتائوں کہ پپو کی عادات بہت اچھی ہیں۔ بڑا کمائو پتر ہے۔ اس دوران مہمان ساتھ ساتھ کھاتے پیتے رہے۔ دو ڈھائی گھنٹوں بعد جب مہمان جانے لگے تو ان میں سے ایک عورت کو پپو کی ماں نے پوچھا کہ بہن کیا سوچا پھر آپ نے؟ مہمان عورت مسکرا کر بولی۔ بس کیا بتائوں میں، آپ کا لڑکا ذرا پیاز کھاتا ہے۔ جو لڑکا پیاز کھاتا ہو اس کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے ‘‘
خواتین و حضرات! پاکستانی اسمبلیوں میں پپو سے ملتے جلتے کردار کافی تعداد میں ہیں۔ جو واقعہ میں نے بیان کیا ہے آپ اسے پپو پٹواری سے جوڑنے کی کوشش نہ کرنا۔ اس کا تذکر ہ تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چوہدری اعتزاز احسن نے کیا تھا۔ چوہدری نثار علی خان کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے اعتزا زاحسن نے پپو پٹواری کا ذکر کردیا تھا۔
ہر بار نااہلی کے بعد خطہ پوٹھوہار سے وزیراعظم لایا جاتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد ضلع راولپنڈی سے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنایا گیا تھا، اب نواز شریف کی نااہلی کے بعد ضلع راولپنڈی سے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ راجہ پرویز اشرف تحصیل گوجرخان کےتھے جبکہ شاہد خاقان عباسی تحصیل مری کے رہنے والے ہیں۔ اس وقت سیاست میں ہلچل ہے۔ نواز شریف کی نااہلی کا 70فیصد کریڈٹ لیتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جن سے اپوزیشن کا فطری اتحاد خطرے میںپڑ جائے۔ غالباً خورشید شاہ کااشارہ عمران خان کی تقریر کی طرف تھا جس میں زرداری کی باری کا ذکر تھا۔ جس طرح جاوید ہاشمی کو ایک پریس کانفرنس لے ڈوبی تھی اسی طرح ایک نااہل آدمی کی حمایت میں کی گئی پریس کانفرنس راجہ فاروق حیدر اور حفیظ الرحمٰن کو مہنگی پڑی۔ اگرچہ اب وضاحتیں اور تردیدیں جاری ہیں مگر ہوسکتا ہے کہ دونوں اپنی اپنی پوزیشن پر نہ رہیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کام بہت جلد ہو جائے۔ کچھ اور لوگ بھی نااہل ہونے والے کے حق میں پریس کانفرنس کرتے نظر آئے ہیں، ایسے لوگوں کی باریاں بھی آنے والی ہیں۔ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ سوال شاید بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہ آرہا ہو،
اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ہر ایک کو اپنے پائوں جلتے ہوئے نظر آ رہےہیں۔
پاکستان میں کرپشن کے بادشاہ آخری وار کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس تیاری میں ان کے ہمنوا بھی شامل ہیں۔ وہ ملک میں افراتفری پیدا کریں گے۔ اگلے چند مہینے خطرناک ہیں۔ ہنگاموں اور شورش کا امکان ہے کیونکہ اس سلسلے میں تیاری ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ ملکی اداروں کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کوشش میں وہ ملک سے محبت بھول جائیں گے مگر پھر ملکی ادارے ان کا ایسا علاج کریں گے کہ کرپشن مافیا کو دن میں تارے نظر آجائیں گے۔ آخری وار میں بھی کرپشن مافیا کو شکست ہوگی۔ بس اس کے بعد پاکستان میں کوئی کرپشن کی جرأت نہیں کرے گا۔ کرپشن کا چراغ بجھ رہا ہے، بجھنے سےپہلے پھڑپھڑا رہا ہے۔ احتساب بہت کچھ صاف کرنے والا ہے۔ ہر ایک کا سخت ترین احتساب ہوگا۔ کسی وقت بھی حدیبیہ پیپرز کا مقدمہ کھل سکتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ وزارت ِ عظمیٰ کے شوق میں شہباز شریف وزارت ِ اعلیٰ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے کیونکہ ان کا الیکشن مشکل ہو جائے گا۔ حالات ایسے ہیں کہ کسی وقت بھی جسٹس باقر نجفی رپورٹ سامنے آسکتی ہے۔ کسی وقت بھی سانحہ ٔ ماڈل ٹائون گلے پڑ سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال میں ایک بات مثبت ہے کہ چند ماہ بعد کرپشن مافیا کو مکمل شکست ہو جائے گی، جو جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کا کھیل کھیلتے رہے۔ ان کا کھیل ختم ہونے والا ہے۔ آپ کو چند ماہ بعد کرپشن سے پاک، پاکستان نظر آئے گا۔ لگتا ہے احمد ندیم قاسمیؔ کے شعر کی سچائی کا وقت آگیا ہے کہ؎
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

تازہ ترین