• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اور اَب جب کہ شاہد خاقان عباسی ملک کے نئے وزیر اعظم منتخب ہوچکے ہیں ، پاناما کیس کی سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر لگائے گئے بدعنوانی کے تمام تر الزامات کی باز گشت مدّھم ہوتی محسوس ہورہی ہے۔کیایہاں یہ کہنا درست نہیں کہ الزاما ت کی شدّت اور مَنی ٹریل کی عدم دستیابی کے سبب نواز شریف کے خلاف پیدا ہونے والی فضا اُس وقت چھٹ سی گئی تھی جب عدالت عظمیٰ نے اُنہیں ایک انتہائی مختلف معاملے میں صادق و امین نہ پاکر نا اہل قرار دینے کا فیصلہ سنایا ؟ اگرچہ کوئی ماہرِقانون زیادہ بہتر بتا سکتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے نواز شریف کے خلاف یہ تمام الزامات کچھ دنوں میں نہ صرف قوم کے لئے ایک معمہ بن جائیں گے بلکہ اِنہیں نااہل قراردینے کا فیصلہ بھی اپنی خاص نوعیت کے باعث آئندہ کسی وقت اُن کی زندگی میں’ کچھ‘ آسانیوں کا سبب بن سکتا ہے۔
فی الحال نواز شریف یقیناً ایک کٹھن دور سے گزرہے ہیں۔ اِن کے پاس اِس وقت بھائی اور سیاسی رفقا کے ذریعے سیاست کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں! لیکن کسی دوسرے کے ذریعے کامیاب حکمرانی کرنا بھی ان کے لئے آسا ن نہ ہوگا کیوں کہ نہ تو میاں نواز شریف خود چانکیہ جیسے معاملہ فہم اور ماہر اسٹیٹس مین(statesman) ہیںاور نہ ہی اِن کا کوئی عزیز اِن کے لئے موریہ جیسا بہادر اور وفادار حکمراں بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔ شریف خاندان کی یہ پریشانیا ں اپنی جگہ لیکن اس نئے منظر نامے میں قوم کو درپیش مسائل یقیناً زیادہ توجہ طلب ہیں۔
سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد قوم کو درپیش تما م تر مسائل فوری اور موثر طور پرحل کرلئے جائیں گے؟ شاید کوئی بھی سمجھدار پاکستانی ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ البتہ جس طرح ملک بھر میں مٹھائیاں تقسیم ہوئیں، سوشل میڈیا پرجا بجا مسرتوں کا اظہار کیا گیا اور جس سطح پر اِبن الوقت عناصر پینترے بدلتے دکھائی دیئے ، لگتا ہے کہ یہاں ماضی سے سبق سیکھنے کا رجحان اب مکمل طو ر پر مفقود ہوچکا ہے۔
عوام کی اکثریت آج بھی عملا ًیہ ماننے کو تیار نہیں کہ صرف حکمراں بدل جانے سے حالات بدل سکتے ہیں۔ ایسا ممکن ہوتاتو پاکستان پچاس کی دہائی میں دنیا کا ترقی یافتہ ترین ملک ہوتا۔ کیوں کہ سال 1951 سے لیکر 1957تک صرف چھ برسوں پر محیط اِس دور میں سات مختلف شخصیات وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہیں۔ یہی نہیں بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد مزید تین گورنر جنرلز گزرے لیکن اِن تمام افراد میں کوئی اِس قابل نہ تھاکہ ملک کودرپیش چیلنجز کا سامنا کرتا۔نا اہلی کے اِس تسلسل کے سبب ملک میں آمریت کے دروازے ہمیشہ کے لئے کھل گئے۔
سفارتی معاملات میں ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیا قت علی خان کا سوویت یونین پرامریکہ کو ترجیح دینا ملک کے ترقی پسند حلقوں میں قبول نہیں کیا گیا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ سرد جنگ کے اِن ابتدائی سالوں میںجب تک لیاقت علی خان زندہ رہے امریکہ اپنی تمام تر کوششوں کے باجودپاکستان میںکوئی ایئر بیس قائم کرنے میں ناکام رہا۔ پھر چہرے بدلتے رہے اور آخر کار ایوب خان کے دور میںامریکیوں نے دَھڑلے سے پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں ایئر اسٹیشن کے نام پر گویا ایک چھوٹا سا امریکی شہر بسا ڈالا! یوں پاکستان کی سا لمیت مستقل طور پر خطرے میں پڑ گئی۔
سال 1976کے عام انتخابات میں ذوالفقارعلی بھٹو دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگا کر پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم تلے ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی حکمرا ں کے خلاف اتنی منظم، مستقل اور کامیاب تحریک کی کوئی مثال نہیں ملتی (یہاں فی الحال تحریک کی کامیابی کے ’خاص‘ اسباب پر کوئی بحث نہیں! )۔ اِس تحریک نے ملک کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل ڈالا اورذوالفقار رعلی بھٹو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سے تختہ دار پر پہنچادیئے گئے۔ لیکن اقتدار کی کرسی پرجنرل ضیاءالحق کے براجمان ہوتے ہی تحریک میں شامل چند تاریخ فہم رہ نمائوں کو یقیناً اندازہ ہوگیا ہوگاکہ اُس بار بھی حکمراں کا بدل جانا کسی مثبت تبدیلی کے بجائے ملک بھر میں غیر معمولی اورمستقل بدامنی اور اقتصادی عدم استحکام کا سبب بننے والا ہے۔
پھر کوئی بتلائے کہ جنرل ضیاءالحق کے بعد بے نظیر، پھر نواز شریف ، پھر بے نظیر اور پھر نواز شریف ؛ اور اس کے بعد جنرل مشرف، پھر زرداری اور پھر نواز شریف کا اقتدار میں آتے اور جاتے رہنا، چہروں کا بدلنا اور بدلتے رہنا ، ایک کا آنا اور دوسرے کا جانا ، کیا ملک میں کبھی کسی مثبت تبدیلی کاباعث بنا؟ اِس سوال کا جواب در حقیقت پوری قوم کو معلوم ہے۔
پاکستان کے قیام کے ابتدائی سال کئی پہلوئوں سے انتہائی اَہم تھے۔ اس دوران جمہوریت کی داغ بیل ڈالی جاسکتی تھی ، آئین سازی ہوسکتی تھی ، انتخابی لائحہ عمل وضع کیا جاسکتا تھا، اداروں کی تخلیق اور تشکیل نوکے لئے منصوبہ بندی ہوسکتی تھی ؛ ملنساری ، اخلاقیات ، رواداری، احترام، فلسفے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر تعلیمی نصاب مرتب کیاجاسکتا تھا ، صنعتی انفرسٹرکچر قائم کیا جاسکتا تھا، جاگیر داری اور قبائلی روایات ختم کرکے متاثرہ علاقوں اور وہاں بسنے والوں کو جدید اور مہذب معاشرے کا حصہ بنایا جاسکتا تھا، مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف زیادہ موثر انداز میں پیش کیاجاسکتا تھا ، مربوط خارجہ اور دفاعی پالیسی وضع کرکے سول ملٹری تعلقات کو ابتداہی سے صحیح راستوں پر استوار کیا جاسکتا تھا اور سب سے بڑھ کر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی غیر جانبدارانہ حیثیت برقرار رکھنے کے لئے دیر پا فیصلہ سازی کی جاسکتی تھی۔ لیکن ہوا کیا ؟ چہرے بدلتے رہے اور نتیجہ صفر رہا۔
بات صرف اتنی ہے کہ معاشرے میں اگر جمہوریت پھل پھول نہ سکے تو بدعنوانی سے لیکر دہشت گردی تک کسی بھی قسم کے جرم کو جڑ سے ختم کرنے کئے لئے ناگزیر طور پر درکار شفافیت دستیاب نہیں ہوتی۔ جرم و انصاف کا ہر موثر نظام صرف شفافیت ، بلاتخصیص کارروائیوں اور بلا امتیاز عدل کی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے؛ اورایسے نظام کا قیام جمہوری اقدار کے نفاذ اور فروغ کے بغیر ناممکن ہے۔ دورِ جدیدمیں دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں تمام تر قدر مشترک عناصر میں ’ جمہوریت‘ سرفہرست ہے۔ اور حقیقی جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہے کہ عوام کے منتخب کردہ کسی بھی اچھے یا بُرے حکمراں کو صرف عوام کی رائے کے ذریعے ہی، ایک غیر جانب دار اور شفاف انتخابی عمل کے تحت ، صحیح وقت پر اقتدار سے بے دخل کیا جاسکتا ہو۔ غیر جانب دار اور شفاف بالغ رائے دہی کے بغیر حکمر انوں کا آنا یا چلے جانا ملک کے عوام پچھلی سات دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔ لہٰذا، نہیں معلوم کہ صحیح یا غلط، بس اب سوتے جاگتے ’’ہنوز نیا پاکستان دور اَست ‘‘ کی صدا کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔

تازہ ترین