• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ترقی کیوں نہیں کر سکے....؟ چینی نکتہ چینی…فضل ربی راہی

تجسس اور مہم جوئی جیسے انسان کی جبلت میں ہے ۔ ہر انسان فطری طور پر نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔ سکول اور کالج کے زمانے میں ٹور پر جانا اور نئے علاقوں کی سیر و سیاحت کرنا کم و بیش ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے ۔ بچپن سے مجھے بھی نئے علاقوں کی سیر و سیاحت کا بڑا شوق تھا۔ قدرت نے مجھے سوات جیسی خوب صورت وادی کا مکین بنایا ہے تو اس سے میں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے ۔ بلند و بالا برف پوش پہاڑی چوٹیوں میں واقع جھیلوں تک پہنچنا کسی مہم سے کم نہیں۔ انھی جھیلوں کی مہم جوئی کرنا اور پھر ان کے بارے میں لکھنا میرا محبوب مشغلہ اور بعد ازاں مشن رہا ہے ۔ بعض اوقات سوات کی طلسماتی خوب صورتی کی حامل کسی جھیل تک پہنچنے کے لیے راستے میں پہاڑوں میں رات بھی بسر کرنا پڑتی تھی لیکن جب جھیل کی شفاف پانی پر نظر پڑتی تو اس کی سحر انگیزی ساری تھکن اتار دیتی۔ سوات میں بے شمار ایسی نیلگوں اور ملکوتی حسن رکھنے والی جھیلیں موجود ہیں جن تک کوئی سڑک یا کچا راستا موجود نہیں۔ ان جھیلوں تک پہنچنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے اور ان تک پہنچنا کسی مہم جوئی سے کم نہیں۔سوات اب وہ پرانا سوات نہیں رہا ہے ۔ بیس پچیس سال قبل دریائے سوات نہایت صاف و شفاف ہوتا تھا۔ اس کا پانی پینے کے قابل تھا لیکن جیسے ہی سوات خصوصاً وادئ کالام میں ہوٹلوں کی تعداد بڑھتی گئی اور ان ہوٹلوں کا ڈرنیج اور سیوریج دریائے سوات میں بہایا جانے لگا تو اس کا پانی آلودہ ہونے لگا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ مہوڈنڈ سے لے کر کالام، بحرین، مدین اور مینگورہ تک جتنے بھی ہوٹل اور ریستوران ہیں، ان سب کی گندگی دریائے سوات میں ڈالی جاتی ہے ۔ یوں سوات کا یہ تاریخی دریا اتنا آلودہ ہوچکا ہے کہ اس کی آلودگی کی وجہ سے مچھلیوں تک کی زندگیاں خطرے میں پڑ چکی ہیں لیکن ملکی قوانین اور مقامی انتظامیہ کی موجودگی کے باوجود کہن دریائے سوات کو انسانی آلائشوں اور دیگر آلودگیوں سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ یہی نہیں بلکہ بلدیہ مینگورہ بھی شہر کا سارا کوڑا کرکٹ اسی دریائے سوات میں ڈال دیتی تھی جس پر کچھ عرصہ قبل ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تھا اور بلدیہ مینگورہ کو ایسا کرنے سے سختی منع کردیا تھا۔ اس کے علاوہ مینگورہ میں سوات کی ایک اور خوب صورت وادی مرغزار سے ایک شفاف ندی بہتی ہوئی وادئ جامبل کوکارئی کی طرف سے آنے والی ایک ندی میں مدغم ہوتی ہے لیکن ان ندیوں میں بھی شہر بھر کی غلاظت پھینکی جاتی ہے جو بعد ازاں دریائے سوات سے جا ملتی ہے ۔ جس مقام پر شہر کی غلاظت ان ندیوں میں شامل ہو رہی ہے ، وہ بلدیہ مینگورہ کے عین سامنے واقع ہے لیکن شہر کی صفائی کے نام پر موجود بلدیہ کے سرکاری اہل کار اور ضلعی ناظم کو اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔ یہی ندیاں کسی وقت مینگورہ کی خوب صورتی کا باعث تھیں۔ ان کا پانی صاف و شفاف ہوتا تھا لیکن قانون کی عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ ندیاں شہر کی بدصورتی کے باعث بن چکی ہیں۔سوات جو اپنی خوب صورتی اور دل کش مناظر کے لیے پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے ۔ یہ 1969ء سے پہلے ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے قائم تھا۔ اس وقت سوات کا ہر گوشہ بلاشبہ خوب صورت تھا۔ صفائی کا نظام عمدہ تھا۔ پورے سوات میں گھنے جنگلات ہوا کرتے تھے ۔ پہاڑ سرسبز و شاداب تھے ۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں بھی کھیت و کھلیانوں میں درختوں کے جھنڈ موجود تھے ۔ اندرون شہر جگہ جگہ درخت اور سبزہ نظر آتا تھا۔ والئی سوات کی طرف سے درخت کاٹنے پر سخت پابندی عائد تھی۔ یہاں تک کہ کوئی اپنے ذاتی گھر کا درخت بھی نہیں کاٹ سکتا تھا۔ اس کے لیے بھی معقول وجہ بتا کر اجازت لینا پڑتی تھی لیکن جب ریاست سوات پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم ہوئی تو جنت نظیر سوات ایک چھوٹے جہنم میں تبدیل ہوگیا۔ جنگلات کا صفایا کردیا گیا۔ پاکستان تاریخی، تہذیبی اور قدیم ثقافتی حوالے سے ایک بہت اہم ملک ہے ۔ ہڑپہ، موہنجو دڑو، ٹیکسلا اور سوات میں کتنی قدیم تہذیبیں پروان چڑھیں اور زوال پزیر ہوئیں۔ ان کے قدیم آثار آج بھی ماضی کی کہانیاں سناتے ہیں۔ سوات اور خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں گندھارا تہذیب اور بدھ مت کے آثار اس قدر بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ ان علاقوں کے قدیم تاریخی آثار کو عالمی ورثہ کی حیثیت دے کر انھیں نہ صرف محفوظ بنایا جاسکتا ہے بلکہ انھیں دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پرکشش بناکر انھیں یہاں آنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے ۔ اللہ نے سوات، کاغان اور شمالی علاقہ جات کو جتنی قدرتی خوب صورتی و زیبائی دے رکھی ہے ، اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں پاکستان میں ہیں لیکن اس جدید دور میں بھی ہم سیاحت کو صنعت کا درجہ نہیں دے سکے۔ قدرتی وسائل کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں گیس، تیل اور کوئلہ کے ذخائر کے علاوہ سونے کی کانیں موجود ہیں لیکن ان سے فائدہ اٹھانے والی اہل قیادت ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ قدرت نے گوادر کی شکل میں کتنی بڑی نعمت سے ہمیں سرفراز فرمایا ہے لیکن ہم پاک چائنا اکنامکس کاریڈور کی شکل میں صوبائی منافرت اور تنازعات میں پڑے ہوئے ہیں۔ تھر میں کوئلہ کے ذخائر قومی ترقی میں کتنا بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن ہمارے حکمران اگر اپنے ذاتی مفاد کی سوچ سے باہر نکلیں تو وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرسکیں گے ۔ خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں کوہاٹ، بنوں وغیرہ میں گیس و تیل کے ذخائر سے ہم کوئی فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں۔ سوات، بونیر اور بلوچستان میں قیمتی سنگ مرمر لامحدود مقدار میں موجود ہے لیکن اس سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کیلئے بھی اہل لوگوں کی ضرورت ہے سوات اور شانگلہ میں زمرد کی کانیں ہیں، جہاں دنیا کا قیمتی زمرد پایا جاتا ہے لیکن وہ بھی ہمارے لیے مٹی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہ بھی ذرا دیکھیں کہ قدرت نے ہمیں پانی کی کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے لیکن ہم اسے ضائع کرنے میں کوئی موقع ضائع نہیں کرتے اور اس سے فائدہ اٹھانا شاید ہماری قسمت میں نہیں۔ پاکستان کے دوسرے دریاؤں سے قطع نظر دریائے سوات جو ہزاروں سالوں سے سال کے بارہ مہینے مسلسل بہتا چلا آ رہاہے ، اس پر متعدد مقامات پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے کے علاوہ بہت سی جگہوں پر صرف ٹربائن لگاکر ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن کون ہے جو قوم و ملک کے مفاد کے لیے کوئی عملی قدم اٹھا سکے ۔ ونڈ ٹربائن کے ذریعے یو کے اپنی ضروریات کی قریباً 26 فی صد بجلی بنا رہاہے اور ہمارے ملک میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ہر وقت تیز ہوائیں چلتی ہیں لیکن ان سے استفادہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ غرض ہمارا ملک وسائل کے اعتبار سے جتنا خوش قسمت ہے ، قیادت کے لحاظ سے اتناہی بدقسمت ہے ۔ اگر ناروے جیسا موسم اور شب و روز کے اعتبار سے ناموافق ملک محض اپنی تیل کی پیداوار سے ترقی کرسکتا ہے اور اس کی قیادت اسے ایک فلاحی مملکت میں بدل سکتی ہے تو آخر ہم کیوں ہر شعبہ میں اتنے پس ماندہ اور درماندہ ہیں۔ ہم اگر اپنے ملک کے دستیاب قدرتی وسائل میں سے کوئی ایک وسیلہ بھی صحیح طریقے سے کام میں لائیں تو ہمارے تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے ۔لیکن جب تک وطن عزیز کا ہر ادارہ خود کو طاقت کا سرچشمہ تصور کرے گا، طاقت کا ہر سرچشمہ جب اپنے مفادات اور ضروریات کے مطابق کسی کو محب وطن اور کسی کو غدار گردانے گا تو قومی یکجہتی کا تصور پامال ہوتا رہے گا۔ کوئی ایک قومیت خود کو اصل پاکستانی اور دوسری قومیتوں کو اچھوت کا درجہ دے گا تو یہ ملک ہمیشہ بے اتفاقی اور قومی خلفشار کا شکار رہے گا۔اگر جمہوری اداروں کو مضبوط ہونے کا موقع دیا جائے، جمہوری عمل کے ذریعے بر سراقتدار آنے والی حکومت کو فری ہینڈ دیا جائے اور فوج اور سول حکومت کے درمیان چیک اینڈ بیلنس کا ایک قابل عمل نظام قائم کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم صدیوں کا سفر عشروں میں طے نہ کرسکیں۔

تازہ ترین