• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ 2010ء میں آئین کی بنیادی اقدار ختم نہ کرنیکی یقین دہانی کرا چکی

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) آئینی اصلاحات کیلئے قائم کی جانے والی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے اور قانون ساز ادارے میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے موجودہ چیئرمین سینیٹ نے میاں رضا ربانی نے 2010ء میں پارلیمنٹ اور ساتھ ہی سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آئین کی بنیادی اقدار بشمول اسلامی شقوں میں ترمیم نہیں کی جائے گی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیئے جانے کے تناظر میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) بھرپور انداز سے آئین کے آرٹیکل 62-63 کی اسلامی شقوں کو ہدف بنانے کی تیاری میں مصروف ہے لیکن پارلیمنٹ کی طرف سے میاں رضا ربانی پہلے ہی سپریم کورٹ سے کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ آئین کی اسلامی شقوں کو ٹارگٹ نہیں کرے گی۔

یقین دہانی کے باوجود سپریم کورٹ سمجھتی تھی کہ 18ویں ترمیم میں آئین کی ایک بنیادی خصوصیت، عدلیہ کی آزادی، کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی جس کے بعد عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے آئین کی بنیادی اقدار کے تحفظ کیلئے کچھ ترامیم کو منسوخ کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ 

اپنے فیصلے میں چیف جسٹس اختیار محمد چوہدری پر مشتمل فُل بینچ نے آئین کی بنیادی خصوصیات اور ان کی اہمیت پر بحث کی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پارلیمنٹ ان میں کسی طرح کی ترامیم نہ کرے۔

رضا ربانی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے 18ویں ترمیم کو چیلنج کرنے کے حوالے سے اپنے آرڈر میں کہا تھا کہ ’’وزیراعظم کے مشیر (پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات کے چیئرمین) نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ آئین کی بنیادی اقدار میں ترمیم نہیں کی جائے گی اور انہوں نے کہا تھا کہ میڈم اسپیکر اس آرٹیکل کی تفصیلات میں جانے سے قبل میں یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ آئینی اصلاحات کا بنیادی مقصد جس کی وجہ سے آئینی اصلاحات کا کام شروع کیا گیا یہ تھا کہ آئین کے بنیادی اصولوں میں ترمیم نہ ہو سکے۔‘‘

18ویں ترمیم کو ان بنیادوں پر چیلنج کیا گیا تھا کہ یہ آئین کی نمایاں خصو صیا ت سے متصادم ہیں اور درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان خصوصیات میں پارلیمانی طرز حکمرانی، اسلامی شقوں کے امتزاج کے ساتھ جمہوریت، بنیادی حقوق کی فراہمی، عدلیہ کی آزادی اور وفاقیت شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق استدعا کی گئی ہے کہ جن شقوں کو چیلنج کیا گیا ہے انہیں ختم کیا جائے، بنیادی ڈھانچے کا نظریہ نافذ کیا گیا تھا اور یہ قرار دیا گیا تھا کہ آئین میں ترمیم کے اختیار کی باقاعدہ حدود کے تعین کا اصول کئی آزاد جمہوریتوں میں آئینی قوانین کا حصہ بن چکا ہے۔

اس ضمن میں بھارت اور بنگلادیش کی سپریم کورٹس کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلوں کا حوالہ بھی پیش کیا گیا جہاں بنیادی ڈھانچے میں کی جانے والی ترامیم کو منسوخ کیا جا چکا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کے تحت سپریم کورٹ کے فُل بینچ کا کہنا تھا کہ یہ درخواست کی گئی تھی کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو سپریم کورٹ کی جانب سے محمود اچکزئی بنام وفاق پاکستان (پی ایل ڈی 1997 ایس سی 426) کیس اور سید ظفر علی شاہ بنام جنرل پرویز مشرف، چیف ایگزیکٹو پاکستان (پی ایل ڈی 2000ء ایس سی 869) کیس حتیٰ کہ وکلا محاذ برائے تحفظ دستور بنام وفاق پاکستان (پی ایل ڈی 1998ء ایس سی 1263) کیس میں میں قبولیت ملی تھی، عدالت نے آئینی شق کو ختم کرنے کیلئے تبدیلی کرنے کو مناسب نہیں سمجھا تھا۔

سپریم کورٹ نے اس آرڈر میں آئین کی بنیادی اقدار سے متصادم متنازع شقیں ختم کرنے سے گریز کیا تھا لیکن یہ معاملہ واپس پارلیمنٹ کو بھجواتے ہوئے اس پر سپریم کورٹ کی اُن سفارشات کی روشنی میں دوبارہ غور کرنے کا حکم دیا تھا جو اسی فیصلے میں دی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ کے آرڈر میں اعتراف کیا گیا تھا کہ عدالت کو اس بات کا ادراک ہے کہ آئین تخلیق میں ایک ایسی طرز حکمرانی کا ڈھانچہ بنانے کا ذکر ہے جو طاقت کی تقسیم ثلاثی کی بنیاد پر ہو جس کے تحت علیحدگی کا نظریہ کی روشنی میں ہر حصے کا دائرہ اختیار طے کر دیا گیا ہے۔

سیاسی حاکم اعلیٰ یعنی عوام ایک مقدس اعتماد کے ٹرسٹی ہونے کی حیثیت سے آئین میں اختیا رات کی تقسیم پر بھروسہ کرتے ہیں، اس میں انہوں نے ججوں کو خالصتاً سیاسی معاملات میں ثالث مقرر نہیں کیا بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ججز قانون کے مطابق درست انداز سے بلا خوف و خطر، دبائو میں آئے بغیر (آئین کے حلف کے تحت) عمل کریں۔

تازہ ترین