• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا کی نئی افغان پالیسی پاکستان کیلئے خوشخبری نہیں

Todays Print

اسلام آباد (حنیف خالد) جولائی کے وسط میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےامریکی کیمیکل کمپنی کے سربراہ سے افغانستان میں موجود امریکی فوج کے حوالے سے تبادلہ خیالات کیا تھا۔ ٹرمپ کو بتایا گیا کہ افغانستان کے بڑے پیمانے پر قدرتی وسائل کے استحصال کا نتیجہ ناقابل یقین معاشی خوشحالی کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکی کمپنی امریکن ایلیمنٹس کے سی ای او مائیکل سلور سے گفتگو میں ٹرمپ کو پتہ چلا کہ افغان سرزمین میں بیش بہا دولت دفن ہے، شاید ایک ٹریلین ڈالرسے بھی زیادہ۔ جو تانبے، لوہے اور دیگر قیمتی دھاتوں پر مشتمل قدرتی وسائل پر مشتمل ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق قدرتی وسائل کو حاصل کرنے کے منصوبہ میں پہلی بار صدر ٹرمپ کی دلچسپی افغان صدر اشرف غنی کی گفتگو سے ہوئی جو مئی میں ان سے ریاض میں ملے تھے۔ اشرف غنی نے ٹرمپ کو مبینہ طور پربتایا تھا کہ ہم بہت غیرمعمولی دولت پر بیٹھے ہیں تو چین کے بجائے وہاں امریکی کمپنیاں کیوں کام نہیں کررہیں؟ وہائٹ ہائوس کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ افغانستان میں جاری جنگ جس کو 16سال ہوچکے ہیں اورجس میں 24 سو امریکی ہلاک اور ایک ٹریلین ڈالرسے بھی زیادہ اخراجات آ چکے ہیں، صدر کو ان کی اس بات نے متاثر کیا۔صدر اسے واپس ادا کرنا چاہتے ہیں۔

ذرائع نے ’’فارن پالیسی‘‘ کو بتایا ہے کہ نیویارک ٹائمز نے پہلی بار جولائی میں رپورٹ دی تھی کہ سلور، ٹرمپ کے قریبی ساتھی سے ملے تھے مگر مائننگ کے سی ای او نے صدر ٹرمپ سے ذاتی طور پر ملاقات کرکے انہیں افغانستان کی معدنی دولت بروئے کارلانے کی تجویز دی تھی۔ ’’امریکن ایلیمنٹس‘‘ کے ایک ترجمان اور ٹرمپ انتظامیہ کے دو افسروں نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کی تصدیق کی ہے۔

وہائٹ ہائوس میں ہونے والی گفتگو انڈر سکور ہے کہ صدر اور ان کے بعض نائب افغانستان کی جنگ سالہا سال کے تعطل کے بعد غیر مستحکم متبادل منصوبوں کے بارے میں بے چین ہیں۔ صدر کے جنگ میں شکست سے خود کو روکنے کے دو متضاد سوچیں وزارت دفاع میں مایوسی کا سبب بنی ہے۔ صدر اور ان کے پرنسپلز جمعہ کو کیمپ ڈیوڈ میں اس ایشو پر گفتگو کریں گے ٹرمپ کو اب ایک اہم امتحان کا سامنا ہے کہ ان کے کمانڈر ان چیف افغانستان میں جاری جنگ کو مینیج کریں گے اور ملکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ہے۔

یہ اجلاس افغانستان میں اس سال ہونے والی گیارہویں امریکی گرین بیریٹ کی ہلاکت کے حوالے سے ہوئی۔ نائب صدر مائیک پینس لاطینی امریکہ کا دورہ مختصر کرکے اس سیشن میں حصہ لیا جبکہ وزیر دفاع جیمزنے جمعرات کو وزارت خارجہ میں کہا گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں جنگ کے بارے میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ ٹرمپ اس اجلاس میں افغانستان میں کسی ڈیل کے سلسلے میں گئے مگر انہیں اپنے پیش روئوں کی طرح سامنا کریں گے۔ کونسل ان فارن ریلیشنز کے سینئرفیلوسٹیفن بیڈل کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ان کسی ناجائز چوائس کا راستہ نہیں ملے گا۔

موجودہ اور سابقہ پینٹاگون حکام کا کہنا تھا کہ ٹرمپ جون میں اس وقت خود کو جنگ سے فاصلہ رکھنا چاہتے تھے جب انہوں نے میٹس کوافغانستان میں 39سو فوجی متعین کرنے کا اختیار دیا تھا۔ مگر ریٹائرڈ فور سٹار میرین جنرل نے بال صدر ٹرمپ کے کورٹ میں پھینکتے ہوئے صدر کی واضح پالیسی پر دستخط کئے بغیر مزید فوجیں بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔ سیٹیو بینن اور دیگر اہلکار وں کو وائٹ ہائوس مدعو کیا گیا تاکہ پرنس کے آئیڈیا پر ان کا نقطہ نظر معلوم کیا جاسکے ۔پرنس نے جب سے اپنا کیس کیپیٹول ہل اور واشنگٹن کے ایک میڈیا ہائوس کو پیش کیا تھا تب سے وہ یہ کہہ رہا تھا کہ سالہا سال کی ناکامیوں کے بعد اب یہ وقت ایک نیا ماڈل تشکیل دینے کا ہے ۔

افغان افواج کے ساتھ 5500کنٹریکٹرز تعینات کرنے پرنس کا منصوبہ تھا اور جو منصوبہ پرنس نے دیا تھا وہ سستا ہونے کے ساتھ موثر بھی تھا ۔پرنس کے مطابق امریکی افواج کی کبھی نچلی سطح پر تربیت نہیں کی گئی خصوصاً بٹالین کی سطح پر جو کہ براہ راست بغاوت کو روکنے میں مصروف ہیں۔پرنس نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ایک بڑے پروگرام کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں جیسا کہ افغانستان میں سپیشل فورسز کے ساتھ ہوا‘‘ ۔

’’اگر 4ہزار امریکی فوج بشمول سارجنٹس،وارنٹ آفیسرز ،سٹاف آفیسرز اپنے فرائض انجام دیں اور مطلوبہ نتائج دے سکیں گےتو میں شٹ اپ کہوں گا ‘‘۔پرنس نے کہا کہ انہیں یہ کام کر نا چاہئے ۔لیکن وہ یہ نہیں کر سکتے نہ انہوں نے16سال سے کبھی ایسا کام کیا ہے ۔بنیادی طور پر انہیں کبھی اس انداز میں منظم ہی نہیں کیا گیا کہ وہ یہ کر سکیں۔

پرنس کے آپشن میں کچھ لوگوں کیلئے یہ کشش ہے کہ اس آپشن امریکہ کو دوبارہ روایتی افواج اور دہشت گردی کو روکنے کیلئے آپریشنز کی طرف واپس لا سکتا ہے ۔منصوبہ ملٹری کی موجودہ سوچ کو روکنے کیلئے کام کر تا ہے ۔البتہ آپ محض کائونٹر ٹیریرسٹ فورسز اور آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں اور القائدہ اور اسلامی سٹیٹ اور حقانی نیٹ ورک جیسی باغی تنظیموں کو نہیں روک سکتے ۔ایک سابق سینئر امریکی فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کا برسوں پہلے عراق میں سامنا کرلینا چاہئے تھا کہ آپ ایک صنعتی طاقت والی بغاوت کو نہ تو مار سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر قبضہ کر سکتے ہیں اور اس صورتحال کا افغانستان میں سامنا ہے ۔

البتہ وائٹ ہائوس میں موجود کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پرنس کا منصوبہ ایک تازہ حکمت عملی ہے ۔واضح رہے کہ جنگ کو نجی سیکورٹی فورسز کے ذریعے لڑنا واشنگٹن میں کوئی نیا آئیڈیا نہیں ہے ۔اس حوالے سے نقدین کا کہنا ہے کہ ماضی کا تجربہ عراق ،افغانستان اور دیگر ممالک میں انتہائی مایوس کن رہا ہے ۔پرنس کا دعویٰ کہ اس کا منصوبہ امریکی افواج بھیجنے کے مقابلے میں کافی سستا رہے گا پر بحث ممکن نہیں ہے ۔پرنس کا کہنا ہے کہ اس کے منصوبے پر عمل کرنے سے 30ارب ڈالر سالانہ بچائے جا سکیں گے ۔تاہم ماہر بجٹ ٹوڈ ہیریسن کا کہنا ہے کہ بچت کا زیادہ محتاط اندازہ 5ارب ڈالر سالانہ ہے ۔

خصوصی آپریشنز کرنے والے سابقہ امریکی فوجی دستے یہ کام کرنے پر رضا مند ہیں کےبر عکس سابق فوجیوں کو دوبارہ لڑنے کیلئے لانے سے انسانی حقوق کا قانون متاثر ہوتا ہے سین میک فیٹ کے مطابق پرنس کہتا ہے کہ کنٹریکٹرز اتحادی ممالک سے لائے جائیں گے جن میں کینیڈا،آسٹریلیا،نیو زیلینڈ اور جنوبی افریقہ شامل ہیں ۔

میک فیٹ کا کہنا تھا کہ پرنس کے منصوبے میں کوئی جوابدہی اور شفافیت نہیں ہے اور اس حوالے سے بڑے سوالات کے جواب دینے سے قاصر ہے ۔کچھ بھی ہو ڈونلڈ ٹرمپ کی سیکورٹی ٹیم اور ملٹری کے اعلیٰ حکام کی طرف سے پرنس منصوبے کی شدید مخالفت کی جائیگی ۔وائٹ ہائوس کے قریبی ذرائع کے مطابق نکلسن،مٹیز اور میک ماسٹر اس منصوبے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔حتیٰ کہ ٹرمپ کے قریب ترین مشیر وں نے بھی پرنس منصوبے کی مخالفت کی ہے ۔

یہ بات کہی جارہی ہے کہ ٹرمپ نے 19جولائی کو اپنے مشیروں سے ایک میٹنگ کی تھی اس دوران ٹرمپ نے تجویز پیش کی تھی کہ افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکولسن کو فارغ کر دیا جائے ،مک ماسٹر نے مئی میں جو پہلا آپشن پیش کیا ، وہ مزید فوجی اور اور ایک کھلی کمٹ منٹ تھا،اس نے کانگریس اور انتظامیہ میں مزید حمایت کا رستہ ہموار کیا،لیکن صدر اب تک اس کی تصدیق کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے،ودسرا آپشن پرنس سیکورٹی کنٹریکٹر تجویز ہے جس میں امریکی فوجیوں میں کمی شامل ہے ،اور تیسرا آپشن امریکی فوجیوں کی مکمل واپسی ہے ، اگرچہ وائٹ ہائوس میں کوئی بھی اس کی حمایت کرتا دکھائی نہیں دیتا۔

ایک سینئر انتظامی افسرکے مطابق ٹرمپ کسی حد تک ودسرےآپشن میں دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔منجھلے آپشن میں علاقائی وارلارڈز کے ساتھ مل کر کام کرناشامل ہے، اس مقصد کے لیے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کم سے کم حملہ آور فوج تعینات کرنا مقصود ہے،اس تجویز کے ذریعے سے انسداد دہشتگردی میں سی آئی اے کے کردار میں اضافہ کرنا ہے۔اس سارے مباحثے میں شریک ایک سابق حکومتی افسر کے مطابق سی آئی اے ڈائریکٹر مائیک پوم پیو کواس تجویز کے بارے میں غلط فہمی ہے۔تا ہم ایک دوسرے افسرکے مطابق پہلی تجویز کی تبدیلی کے بعد امریکی فوجیوں کی تعداد میں 15000کے اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے، اس کوکیمپ ڈیوڈ کے اجلاس میں پیش کیا گیا ہے ، یہ حکمت عملی پاکستان سے تعلقات کو بھی بڑی حد تک تبدیل کر دے گی۔ اس لئے امریکا کی نئی افغان پالیسی پاکستان کیلئے خوشخبری نہیں ۔

صدر کا خیال ہے کہ پاکستان نے ہمارے پرخچے اڑا دیےہیں ، لیکن اس کے باوجود ہمیں لاجسٹک کی ضرورت ہے، صدر چاہتے ہیں کہ پاکستان کی تمام فوجی امداد کو ختم کر دیا جائے ، یہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پینٹا گون نے پہلے ہی اسلام آباد کے لیے کولیشن فنڈ کو منجمد کر دیا ہے۔

میٹس نے کہا کہ ہم اس کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف تسلی بخش اقدامات کیے ہیں ، پاکستان کی امداد کم کرنے سے اور کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ، تا ہم سفارتی حلقوں اور جنرلز کا بہت پہلے سے یہ خیال تھا کہ افغانستان میں امن لانے اور جنگ کو ختم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات ہی واحد رستہ ہیں جو پاکستان کی حمایت انجوائے کر رہے ہیں ۔

امریکہ سنٹرل کمانڈ کے ایک افسر نے نام کو راز میں رکھتے ہوئے کہا کہ مسئلہ طالبا ن ہیں لیکن ہم نےآئی ایس آئی ایس اور القاعدہ کے مشن کو پیش نظر رکھاہوا ہے ،اصلہ مسئلہ طالبان کے گرد گھومتا ہے،ہماری حکمت عملی بھی اس کے مطابق ہونی چاہئے، یہ یمن جیسی صورت حال ہے جہاں القاعدہ سے لڑنے کی اجازت ہے لیکن ہماری ایرانی مداخلت اور حوثیوں سے سول وار لڑنے کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں ، انتظامیہ کی پائیدار امن کے لیے طالبان سے سفارتی سطح پر مذاکرا ت کے بجائےا ندرون خانہ ساری حکمت عملی ملٹری آپریشنز اور افغان فورسز کی تربیت پر مرکوز ہے ، باراک اوباما انتظامیہ نے امن کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی کوششوں کی جزوی کامیابی کا سبب طالبان کا یہ نتیجہ اخذ کرنا تھا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے لیے تیار ہے۔

کوئی بھی فوجی تجویز جیت جائے ٹرمپ کے لیے معدنیات کا آئیڈیا ہی سب بڑی ترجیح ہو گا۔ کامرس سیکرٹری ولبر روس آج کل افغانستان میں معدنیات کے امکانات کا تخمینہ لگا رہے ہیں ، جب کہ ایکسون موبل کے سابق سربراہ ٹیلی روسن اس پہلو پر کام کر رہے ہیں کہ کیا افغانستان امریکہ کی طویل المدت سرمایہ کاری کے لیے پائیدار امن کی ضمانت دے سکے گا ۔

کیمیکل ایگزیکٹو مسٹر سلور جس نے ٹرمپ کو یہ آئیڈیا دیا تھا، اس کا کہنا ہے کہ افغانستان کی معدنیات امریکہ معیشت کو وہی فروغ دے سکتی ہیں نوے کی دھائی میں چین نے جس کا تجربہ کیا تھا یہ خیال کہ افغان منرلز میں اس قدر صلاحیت ہے کہ وہ کمزور کابل حکومت کو بچا سکے گا محض ایک فریب ہے۔

افغانستان میں 2010-2011میں امریکی فوج کی کمان کرنے والے جنرل پیٹراس کا کہنا ہے افغانستان میں اصل مسئلہ انفرا سٹرکچر کا ہے روڈز، ٹرین اور پل نہیں ، اگر نجی کمپنیاں، معدنیا ت نکالیں گی تو ان کی سیکورٹی بھی ایک مسئلہ ہو گا،جنوب مغربی صوبے ہلمند میں قیمتی معدینات واف مقدار میں پائی جاتی ہیں یہ صوبہ اس وقت طالبان کی کنٹرول میں ہے ،دوسری طرف افغان حکومت پر منرلز کے ٹھیکوں میں کرپشن کا بھی الزام ہے ، ٹرمپ ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو افغانستان میں امن لا سکے ، تا کہ اس کے نتیجے میں معاشی امکانات پیدا ہو سکیں

۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ وائٹ ہائوس نے کیسے یہ یقین کر لیا ہے کہ وہ کابل حکومت، علاقائی طاقتوں اور اہم پلیئرز جن میں پاکستان ، ایران ،چین اور روس شامل ہے انہیں قائل کیے بغیر کوئی امن معاہدہ کر لے گا۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر بڈل کا خیال ہے کہ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ میدان میں مکمل فتح سے جنگ جیتی جا سکتی ہے یا کسی بھی حکومت کے خاتمہ سے کشمکش ختم ہوجائے گی تو یہ پالیسیوں کی مکمل ناکامی کا موجب ہوتا ہے۔امریکی عمومی طور پر جنگ کے خاتمے کے تصور کو غلط سمجھے ہیں ۔ تقریبا تمام جنگوں کا اختتام مذاکراتی حل پر ہوا، ان میں سے کچھ بالکل غیر متوازن بھی ہیں ۔

تازہ ترین