• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پُرامن پاکستان کا قیام خصوصی مراسلہ…حیدر علی کوریجہ

برسلز ہو، پیرس، لندن یا پھر کوئی بھی بڑا عالمی شہر، سیکورٹی کے اندازبدل رہے ہیں۔چند برس پہلے تک ان شہروں میں پولیس اہلکاروں کے پاس اسلحہ ہوتا تھا نہ لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے سیکورٹی کا کڑا اور مربوط نظام ۔مگر اب مسلسل نگرانی کے لئے پورے شہر کو کیمروں کی آنکھ سے کنٹرول کرنے کی پالیسی جاری ہے۔ چونکہ پاکستان دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہے اس لئے یہاں بھی اس نہج پر کام ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر لاہور کی تقلید کرتے ہوئے کوئٹہ کو محفوظ بنانے کے لئے شہر بھر میں جدید کیمرے لگانے کا منصوبہ زیر غور ہے ،یقیناً یہ امر خوش آئند ہے مگر تشویشناک بات یہ ہے جس کمپنی کی نااہلی و بدانتظامی کے باعث پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا ہے، بلوچستان حکومت اسی کمپنی کو ہی اس منصوبے کا ٹھیکہ دینے پر غور کر رہی ہے۔ اس منصوبے کی اہمیت و افادیت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو مگر ’’دیہاڑیاں‘‘ لگانے والے ان عناصر سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے جو کمیشن کھانے کے چکر میں انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اس طرح کے منصوبوں میں شفافیت اور کڑے معیار کو یقینی بنانا متعلقہ اداروں کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ جب پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے تحت یہ منصوبہ شروع کیا گیا تو بتایا گیا کہ لاہور کی سیکورٹی فول پروف بنانے کے لئے انقلابی نوعیت کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ منصوبے کے لئے سات کمپنیاں شارٹ لسٹ ہوئیں۔ پانچ نے ٹینڈرحاصل کرنے کے لئے تجاویز جمع کروائیں۔ ان میں سے ایک فرم امریکہ کی تھی، دو کا تعلق چین سے تھا اور دو ترکی سے تھیں۔ جب دوبارہ تکنیکی بنیادوں پر ان پانچوں کمپنیوں کی اہلیت جانچنے کا عمل شروع ہواتو ترکی کی دونوں کمپنیاں مسابقت کی دوڑ سے باہر ہو گئیں۔ ٹینڈر کھلا تو امریکہ کی کمپنی کے مقابلے میں چین کی موبائل فون بنانے والی کمپنی نے یہ مقابلہ جیت لیا۔ اس کمپنی نے سب سے کم بولی دی اور یوں 158ملین روپے کا ٹھیکہ اسے دیدیا گیا۔ طے شدہ شرائط کے مطابق اس منصوبے کواکتوبر 2016ء تک مکمل ہونا تھا اور 11اکتوبر 2016ء کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نےاس کا افتتاح بھی کر دیا مگر تادم تحریر منصوبہ نامکمل ہے۔ اس دوران جب لاہور میں فیروز پور روڈ پر خودکش حملہ ہوا تو پتہ چلا کہ جائے دھماکہ کے قریب اس جو کیمرے نصب کئے گئےہیں وہ تاحال آپریشنل ہی نہیں ہیں اور یوں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی دہشت گردوں کا سراغ نہ مل سکا۔ اس سے پہلے اسلام آبادسیف سٹی پروجیکٹ میں بھی اس ہی طرح کی نااہلی کا مظاہرہ کیا گیا تھا مگر اس کے باوجود محض لاگت میں کمی کو بنیاد بناتے ہوئے اس کمپنی کا انتخاب متعلقہ حکام کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ وفاقی داراحکومت میں کیمروں کے ذریعے نگرانی کا منصوبہ پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہوا۔ اس منصوبے کے لئے 11.865ارب روپے کا ٹھیکہ دیا گیا تو بدعنوانی کے الزامات لگے اور شفافیت پر سوالات اٹھے جس پر سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے کنٹریکٹ منسوخ کرکے نیب کو تحقیقات کا حکم دیدیا۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو تفتیش کا عمل روک دیا گیا اورنہ صرف کام کرنے کی اجازت دیدی گئی بلکہ اس منصوبے کی لاگت 11.865ارب سے بڑھ کر 15.9ارب روپے ہو گئی۔ لاہور سیف سٹی پروجیکٹ کا ٹھیکہ حاصل کرنے کے لئے وقتی طورپر لاگت کم کرلی گئی لیکن جب منصوبے پر کام کا آغاز ہوا تو مختلف حیلوں اور بہانوں سے پنجاب حکومت کو بلیک میل کرکے نہ صرف اضافی رقوم حاصل کی گئیں بلکہ کیمروں اور آلات کی تنصیب کے حوالے سے بھی وہی ناقص معیار برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی جس کا مظاہرہ اس سے پہلے اسلام آباد میں کیا جا چکا تھا۔ بلاشبہ امن و امان کا قیام پاکستان کی اولین ضرورت اور ترجیح ہے اور اس حوالے سیف سٹی پروجیکٹ کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں تک پھیلایا جانا خوش آئند ہے لیکن حکومت کو چاہئے کہ اس حساس ترین منصوبے کے لئے پسند نا پسند کے بجائے محض معیار کو ہی اولین شرط کے طور پر پیش نظر رکھے تاکہ پرامن پاکستان کے قیام کا خواب پورا ہو سکے۔

تازہ ترین