• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوامی لائبریری و فروغ تعلیم کھلاتضاد…آصف محمود براہٹلوی

کمپیوٹرٹیکنالوجی سوشل میڈیا سے پوری دنیا سمٹ کر مٹھی میں بند ہو گئی ہے۔ ذرا سی معلومات درکار ہو تو انسان فوری طور پر گوگل کا بٹن پریس کرکے انفارمیشن لے لیتا ہے۔ سپیلنگ چیک سے لیکر الفاظ کے معنی تک اور جمع تفریق سب کچھ جیب میں پڑے ہوئے سمارٹ فون کی مدد سے چیک کرلئے جاتے ہیں۔ بلکہ آن لائن اخبارات ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے اخبارات کی سرکولیشن نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، بلکہ کئی مالکان کو اپنے اخبار بند کرکے صرف آن لائن رکھنے پڑ گئے۔ ایسے میں کتاب بینی تو خواب بن کررہ گئی ہے، گئے وقتوں میں کتاب ایک بہترین ساتھی یا دوست ہوا کرتی تھی۔ صرف برطانیہ ہی کو لے لیں، تقریباً 20 برس قبل ہر جواں مرد عورت کے ہاتھ میں یا بیگ میں کتاب ہوا کرتی تھی، بس سٹاپ ہو یا ٹرین سٹیشن ائر پورٹ وقت ملتے ہی کتاب کھول کر جہاں نشانی لگائی ہوئی تھی دوبارہ سے مطالعہ میں مصروف ہو جاتے تھے بلکہ کچھ وقت کے لئے اگر چند قدم چلنا پڑتا تو اپنی شہادت کی انگلی کتاب کے ان صفات پر رکھ کر کتاب بند کر کے چل پڑے۔ ان وقفوں میں لوگوں کے حسن اخلاق و آدب واحترام پر رشک آتا تھا، جو یقیناً مطالعہ کا اثر تھا۔ پھر کتابیں ایک دوسرے سے تبادلہ کرکے بھی مطالعہ کی جاتی تھیں، اخبارات توروز کا معمول ہوتا تھا بلکہ برطانیہ میں ایک گھر میں اگر دو تین افراد اخبار کا شوق رکھتے تو اپنا اپنا الگ اخبار صبح سویرے ہی چائے کی پیالی کے ساتھ پڑھ لیتے، ہمارے ہاں یہ رسم مختلف ہوتی ہے ہم شہر یا گائوں کی حجام کی دکان پر اخبار پڑھ لیتے اور اب تو اگر اپنی خبر ہوئی تو فوراً ہی فون نکال کر فوٹو نکال لئے تاکہ سوشل میڈیا کی ذینت بنادیا جائے، سوشل میڈیا سے یاد آیا کہ آج کل تصاویر کی بھر مار ہوتی ہے اور اپنے من پسند کیپشن لگائے جاتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ کتاب بینی ختم ہونے سے ہم میں تاریخ سے بھی دوریاں پیدا ہورہی ہیں، آنے والی نسلیں سوشل میڈیا پر ہی سے طرح طرح کے بے ڈھنگے سے کیپشن پڑھ کر اندازہ لگایا کریں گی کہ ہمارے آبائو اجداد نے کیا کیا تاریخ رقم کی ہے۔ بات کہیں دور نکل گئی اصل موضوع عوامی لائبریری تھا، برطانیہ کے ہر شہر میں پبلک لائبریری موجود ہے، موجودہ دور میں کمپیوٹرکو نوجوان نسل کو راغب کرنے کے لئے استعمال میں لایاجارہا ہے، کسی نہ کسی حد تک لوگ عوامی لائبریری سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو عوامی لائبریری کا تصور بھی نہیں ہے۔ میر پور آزاد کشمیر میں میاں محمد بخش عوامی لائبریری اور اکبر لائبریری جن کی کوششوں سے موجود ہیں وہ داد تحسین کے مستحق ہیں۔آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے ضلع کوٹلی میں مرکزی سطح پر کوئی لائبریری موجود نہیں بلکہ حال ہی میں اپنے والد محترم کو فالج کا اٹیک ہونے کا سن کر وطن واپس گیا۔ اب بفضل تعالیٰ آپکی دعائوں سے خاصے بہتر ہیں، تو گائوں چند ہفتے گزارنے کا موقع ملا براہٹلہ پبلک لائبریری کا بورڈ نظروں سے گزرا تو شک ہوا کہ اب بھی کتاب بینی کے شوقین موجود ہیں اور تعلیم کے فروغ کے لئے ہر خاص و عام کے لئے کتابیں موجود ہیں بلکہ ہفتے میں چند روز مختلف ایشوز پر تعمیری بحث کے لئے بھی وقت نکالا جاتا ہے ایسے میں مرحوم ہیڈ ماسٹر راجہ ریاض احمد خان کے فرزند قاری عبدالاسلام مرحوم ہیڈ ماسٹر اسرار احمد مغل کے بھائی، ماسٹر محمود احمد مغل، راجہ شیر افضل خان، ماسٹر عبدالرئوف جیسی شخصیات اپنا کام کرنے کے بعد لائبریری کے لئے بھی رضا کارانہ طورپر وقت نکالتے اور اپنی مدد آپ کے تحت ہزاروں کتابیں براہٹلہ جیسے دور افتادہ گائوں میں رکھ کر تعلیم کے فروغ کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں ان ہی دنوں آزاد کشمیر کے معروف مصنف پروفیسر سعید اسد، لوٹن کی مشہور عوامی شخصیت خواجہ عبداللطیف کے ہمراہ براہٹلہ تشریف لے گئے اور تحریک آزاد کشمیر اور ہماری جدوجہد پر پروفیسر صاحب کا تقریباً گھنٹے بھر کا لیکچر سنا، خود پروفیسر صاحب براہٹلہ سے اچھی یادیں لیکر واپس گئے، جاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی جگہ دیکھی جہاں تعلیم پر بحث سننے کو ملی، کیوں نہ ملتی آج بھی ہراہٹلہ H/Sمیں چھ سو سے زائد بچے حصول علم میں مشغول ہیں، گزشتہ دس پندرہ برسوں سے راجہ شیر باز H/S براہٹلہ ضلع کوٹلی کے ڈی ای او آفس میں تعلیمی حوالے سے سر فہرست ہے اور گائوں میں کل چار ہائی سکول پرائیویٹ سیکٹرز میں قائم ہیں، آزاد کشمیر تعلیمی بورڈ کی پہلی پوزیشن سے لیکر بیسٹ ٹیچر ایوارڈ تک پوزیشن ہمارے حصے میں آچکی ہیں اس کے علاوہ سابق ہیڈ ماسٹر اسرار احمد مغل کی برسی کے موقع پر جلسہ تقسیم انعامات پر آزاد کشمیر بھر سے محکمہ تعلیم سے متعلقہ رہنما آکر انعامات تقسیم کرکے طلبہ میں تعلیمی مقابلہ کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اب کی بار براہٹلہ پبلک لائبریری کی انتظامیہ کو بھی انعام سے نوازا جائیگا کیونکہ فروغ علم کے حوالے سے ان کی کوششیں بھی نہ صرف روشنی کی کرن ہیں بلکہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گی اور ایوارڈ سے عوامی سطح پر ان کی جدوجہد کا اعتراف ہوگا۔

تازہ ترین