• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ ڈائری،62اور63میں ترامیم کیلئے ڈول ڈالنےکا فیصلہ

اسلام آباد( محمد صالح ظافر،خصوصی تجزیہ نگار) حکومت نے مختلف پارلیمانی گروپس سے مفاہمت کی روشنی میں آئین کی دفعات 62اور63میں ترامیم کے لئے ڈول ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جس کے ذریعے ان دفعات کو متوازن اور زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنایا جائے گا۔ ان دفعات کے ضمن میں ان شقوں پر اہلیت ختم کرنے کی مدت کو بھی مقرر کیا جائے گا۔ جن کی خلاف ورزی کی پاداش میں ارکان اسمبلی /سینیٹ کاکوئی انتخاب لڑنے یا کوئی عوامی عہدہ رکھنے کا استحقاق ختم کردیا جاتا ہے۔

قومی اسمبلی نے منگل کو اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہونے سے قبل انتخابی اصلاحات کے اس قانون کو منظور کر لیا جس کے نتیجے میں انتخابات کے شفاف ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات کا حتمی طورپر ازالہ ہوسکے گا۔ یہ قانون اب منظوری کیلئے پارلیمانی ایوان بالا سینیٹ میں جائے گا جہاں اسے ہفتہ رواں میں منظوری بھی مل سکتی ہے۔ جس کے بعد اسے قانون کی شکل مل جائے گی۔ اس قانون کی حد سے آئندہ ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی جن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں شامل ہوں گی۔ انتخابی تنازعات کو نمٹانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر عذر داریوں کی سماعت ہوگی نگران حکومتوں کو اس امر کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ پالیسی امور سے تعلق رکھنے والے فیصلے کرنے کی مجاز نہیں ہوں گی۔

نگران حکومتوں کی تشکیل میں حزب اختلاف میں شامل تمام جماعتوں کو اعتما د میں لیاجائے گا۔ سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عمومی نشستوں کیلئے کم از کم پانچ فیصد نشستوں پر خواتین امیدواروں کو نامزد کریں گی الیکشن کمیشن آف پاکستان عام انتخابات کی تاریخ انعقاد سے کم از کم چھ ماہ قبل انتخابات کرانے کیلئے اپنے لائحہ عمل کو قطعی شکل دیدے گا۔ انتخابی عمل میں خواتین کی شرکت کو زیادہ سے زیادہ شرکت کیلئے کمیشن اقدامات کرے گا۔

نئے قانون کی  رو سے سیاسی جماعتوں پر ممنوعہ ذرائع سے رقوم حاصل کرنے پر پابندی عائد ہو گی۔انتخابی دھاندلی کا رونا سب سے  زیادہ رونے والے شخص نے ایک لمحے کیلئے بھی ایوان کا رُخ نہیں کیا۔ انصاف و قانون کے وفاقی وزیر زاہد حامد نے انتخابی اصلاحات کےقانون کے بارے میں بحث و تمحیص کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ آئین کی دفعہ باسٹھ میں نااہلی کے لئے مدت نااہلی کے لئے مدت مذکور نہیں ہے اب ترمیم کے ذریعے اس کا تعین کردیا جائے گا۔ ان کے خیال میں یہ مدت یقینی طورپر پانچ سال سے کم عرصے پر محیط ہونی چاہئے۔

متذکرہ آئینی ترمیم کو اس کمیٹی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اسپیکر سردارایاز صادق نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے تشکیل دی تھی۔ انہوں نے مسودہ قانون کی شق وار منظوری کے دوران ایوان کو بتایا کہ قومی اسمبلی میں منظور کردہ مسودہ 2017ء میں بھی حکومت نے تجویز کیا ہے کہ کسی جرم پر سزا یافتہ یا کئی ٹریبونل کی جانب سے بدعنوانی یا غیر قانونی حرکت کا مرتکب قرارپائے جانے پر نااہلی پانچ سال کیلئے ہو گی۔ زاہد حامد نے یاد دلایا کہ دفعہ 62اور 63 میں ترامیم کا معاملہ انتخابی اصلاحات کی مرکزی کمیٹی کو ارسال کرنے پر  اتفاق ہوگیا تھا۔

اس بنا پر نااہلی کی مد ت کے تعین پر حتمی فیصلہ مرکزی کمیٹی کرے گی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ انتخابی دھاندلی کا رونا سب سے زیادہ رونے والے شخص نے ایک لمحے کے لئے بھی ایوان کا رُخ نہیں کیا اب انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون پرزبردست بحث و تمحیص جاری تھی۔ عمران خان جس نے 2013ء کے عام انتخابات میں اپنی شکست کے آٹھ ماہ بعد دھاندلی کا غلغلہ برپا کر دیا تھا۔ قومی اسمبلی کے منگل کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہوئے اجلاس میں شرکت کیلئے پورے سیشن کی چھٹی حاصل کر لی تھی۔

انتخابی اصلاحات کے مسودئہ  قانون پر تمام پارلیمانی گروپس میں مفاہمت ہو چکی تھی جس کےبعد پارلیمان ایوانوں سے ان کی منظوری محض رسمی کارروائی رہ گئی تھی۔ اس کے باوجود قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ حکومتی ارکان اور وزراء کی غیرحاضری پر چیخ و پکار کرتے رہے۔

تازہ ترین