• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں اس قسم کی خبریں شائع ہونا تقریباً روٹین بن چکا کہ فلاں گائوں کے فلاں چوہدری نے فلاں خاتون کو گنجا اور برہنہ کر کے گائوں کا چکر لگوایا۔ ذرا غور سے اپنی تیسری آنکھ کھول کر دیکھیں کہ ہمارے سیاستدان بی بی جمہوریت کے ساتھ بھی یہی کچھ کر کے اسے بری طرح ذلیل کرنے کے بعد توقع کرتے ہیں کہ اس مظلومہ کی عزت بھی کی جائے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ بے بی بلاول کی ’’کو چیئرمینی‘‘ پر بھی میں نے اسی طرح احتجاج کیا تھا کہ یہ کل تک جن کی گودوں میں کھیل رہا تھا، انہی کے سفید سروں پر بٹھا دیا گیا بلکہ چوہدری اعتزاز احسن کا تو میں نام لے لے کر احتجاج کرتا رہا کہ کچھ تو حیا کرو کہاں اعتزاز کا علم، عقل، تجربہ، دانش اور گہرائی.....کہاں بلاول کی کم سنی لیکن ہمارے ’’لیڈرز‘‘ اتنے ڈھیٹ اور چکنے گھڑے ہیں کہ ’’دکھاوے‘‘ تک کا تکلف تردد نہیں کرتے یعنی ایک تو موروثیت اوپر سے وہ بھی مکروہ ترین۔ چند سال بھی صبر نہیں کرتے کہ بیٹا یا بیٹی کچھ عرصہ کسی چھوٹے موٹے پراسیس سے ہی گزر لے۔ کمال یہ کہ اتنی بڑی اور ننگی جھک مارنے کے بعد بھی ڈھٹائی میں ڈاکٹریٹ کئے ہوئے یہ لوگ ’’جمہوریت کی اہمیت‘‘ اور ’’ووٹ کے تقدس‘‘ کے ڈھول پیٹتے ہیں تو قصوروار صرف یہی نہیں، وہ لوگ بھی ہیں جو اس دھاندلی اور جمہوری زیادتی کو خاموشی سے قبول کر لیتے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے نام نہاد ’’ سینئر اور بزرگ‘‘ رہنما احتجاجاً اجتماعی استعفیٰ کا فیصلہ کر لیتے تو کس میں اتنی جرات تھی کہ بلاول کو ان کے سروں پر مسلط کر سکتا لیکن نہیں کیونکہ ہمارا تو اجتماعی کردار ہی ایسا ہے۔’’مرا مزاج لڑکپن سے ’’عاجزانہ ہے‘‘۔عاجزانہ پسند نہ آئے تو اس کی جگہ فدویانہ لکھ لیں۔آقا چلے گئے لیکن ہم غلام رہنے سے باز نہیں آئے۔ بادشاہ گزر گئے لیکن ہم رعایا بنے رہنے پر مصر اور بضد سو اگر قائدین کا یہ لیول ہے تو عوام کا کیا حال ہوگا؟ یقیناً وہی جو ہماری لنڈے کی جمہوریت کا ہے جس کی اصل اوقات غریب کی جورو سے زیادہ کچھ نہیں۔ایسے ’’سول پروپرائیٹر شپ‘‘ ماحول میں چوہدری نثار علی خان نے پہلا پتھر اچھالا ہے۔ بارش کا یہ پہلا قطرہ بنجر جمہوری زمین کو مبارک ہو جو بنجر بھی نہیں، بنجر قدیم ہے۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مریم نواز کے موازنہ کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردینے کے بعد نثار نے مریم کو بیٹی تسلیم کیا، لیڈر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ شکر ہے فدویوں کے ہجوم میں کوئی تو عزت دار اور باوقار نکلا۔چوہدری نثار نے کچھ اور بنیادی باتیں بھی کی ہیں جن پر غور کرنے اور عملدرآمد سے جمہوریت کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہوسکتی ہیں۔ کہتے ہیں،’’نوازشریف کو ہمیشہ سمجھایا کہ کوئی آرمی چیف اپنا بندہ نہیں ہوتا‘‘۔’’ووٹ کے تقدس کی بحالی گڈگورننس سے ہوگی۔ محاذآرائی سے نہیں‘‘۔’’اپنا بندہ‘‘ والی سوچ خالصتاً گوالمنڈی برانڈرتھ روڈ ’’مائنڈ سیٹ‘‘ ہے جو کن ٹٹوں، پہلوانوں اور گلیوں محلوں کی سطح پر تو شاید کام آتا ہو، اوپری سطح پر یقیناً کام تمام کردیتا ہے۔ یہی وہ سوچ تھی جس نے قومی اداروں کو ادھیڑ کر رکھ دیا اور سول سرونٹس کو ذاتی ملازموں میں تبدیل کر کے سول سروس کو گرہن لگا دیا۔ ہر جگہ اپنا بندہ .....اپنے بندے گھسانے گھسیڑنے والے اس مریضانہ رویے نے معاشرے کے اخلاقی انحطاط میں کلیدانہ کردار ادا کیا۔ ابھی چند روز پہلے دو ینگ ڈاکٹرز ملنے آئے جو کسی سرکاری ہسپتال میں کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے باتوں باتوں میں عجیب بات کی کہ ’’جب کبھی حمزہ شہباز کا کوئی مالی، باورچی، گن مین، ڈرائیور ٹائپ ملازم آجائے تو ہمارے ایم ایس کے چھکے اور پسینے چھوٹ جاتے ہیں، اس کے ہاتھ پائوں کا نپنے لگتے ہیں اور وہ اتنا بے غیرت ہے کہ ہمیں ہر ضروری ایمرجنسی کام چھوڑ کر پہلے انہیں ’’اٹینڈ‘‘ کرنے کا حکم دیتا ہے تو اپنے آپ اور اس پیشے سے نفرت ہونے لگتی ہے‘‘۔یہ ہے ’’اپنا بندہ‘‘ ٹائپ ذہنیت کا ایک معمولی نمونہ جو پورے معاشرہ کو ایکلپس کر چکا۔ رہ گیا ’’فوجی‘‘ تو جس کی جان اپنی نہیں ہوتی، وہ کسی کا ’’اپنا بندہ‘‘ کیوں کر ہوسکتا ہے؟ لیکن یہ بات رام گلی کے گلے سے نیچے اتر ہی نہیں سکتی کہ بچپن کی تربیت ..... تربت تک ساتھ جاتی ہے اور عادتیں گردنوں کے ساتھ۔دوسری بات تو میں بھی بیسیوں بار لکھ چکا ہوں کہ ووٹ کے تقدس کی بحالی کا تعلق صرف اور صرف گڈگورننس کے ساتھ ہے۔ جمہوریت جمہور یعنی عوام کے ساتھ کھڑی ہو تو کسی بھی قسم کے خطرے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر جمہوریت کی بجائے یہ اس کا جگاڑ ہے تو بگاڑ کو کسی کے بڑے بھی نہیں روک سکتے لیکن یہ سمجھیں گے نہیں کہ اتنا کچھ بھگتنے کے بعد بھی ان کے لچھن نہیں بدلے۔صرف تین تازہ ترین خبریں دیکھ لیں۔’’مریم نواز نے ’’رہنمائوں‘‘ کو ریکارڈ مارجن سے الیکشن جیتنے کا ٹاسک دیدیا‘‘۔’’متوالوں نے حلقہ کے رہائشی اور سیاسی مخالف سرکاری ملازمین کو فوکس کرلیا‘‘۔’’تبادلوں کی دھمکیاں، مقامی رہنمائوں کا رویہ کسی طور پر بھی قانونی اخلاقی نہیں‘‘۔’’دوسری خبر یہ کہ ’’نیب‘‘ کو ڈار کے خاندان کا ریکارڈ فراہم کرنے والا نادرا افسر ڈسمس کردیا گیا‘‘۔اور تیسری خبر یہ ہے۔’’مریم کے خلاف گفتگو۔ نوازشریف نثار سے ناراض۔ راہیں جدا کرنے پر غور‘‘۔’’اب ہمیں اپنوں اور اپنے اندر چھپے دشمنوں کی پہچان کرنا ہوگی۔ مریم کا والد کو مشورہ‘‘۔’’واقعی یہ سدھار جائیں گے، سدھریں گے نہیں‘‘۔

تازہ ترین