• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خطے سے دہشت گردی خصوصاً داعش کے خاتمے کے لئے گزشتہ روز کابل میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات میں امریکہ ، پاکستان اور افغانستان کا مشترکہ کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق جس کی تفصیلات پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے جاری کی ہیں بظاہر ایک مثبت پیش رفت ہے۔تاہم ایسا کوئی اتفاق رائے اس وقت تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا جب تک دوسرے فریقوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف ان گھسے پٹے بے بنیاد الزامات کو دہرانے کی روش ترک نہ کی جائے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور اس کی جانب سے حقانی نیٹ ورک اور بعض دوسری مسلح تنظیموں کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ علاقائی امن و استحکام کے فروغ اور دہشت گردی کے خاتمے لئے پاکستان کے مؤثر اقدامات اور بے مثال قربانیوں کو نظر انداز کرنے یا ان کی اہمیت کو کم کرنے کے بجائے ان کا کھلے دل سے اعتراف علاقائی امن کی مشترکہ کوششوں کو کامیاب بنانے کے لئے ناگزیر ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی لازمی ہے کہ پاکستان جس طرح یہ اہتمام کررہا ہے کہ اس کی سرزمین افغانستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہو نے پائے، حتیٰ کہ اس مقصد کے لئے پاک فوج ڈھائی ہزار کلومیٹر کی مشترکہ سرحد پر باڑھ بھی لگارہی ہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ہر قسم کی غیرقانونی آمد ورفت رو کی جاسکے، افغانستان کو بھی اسی طرح اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے اور بھارت کے خفیہ اداروں کو بھی افغانستان سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جس کے شواہد آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ خطے کے امن واستحکام کے لئے سب سے زیادہ ضروری بھارت کی روش کا درست کیا جانا ہے اس کی اصل ذمہ داری امریکی قیادت پر عائد ہوتی ہے جس نے مودی حکومت کی تمام امن دشمن پالیسیوںکے باوجود، جن میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی مستقل روش، لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کشمیر میں بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم، کشمیری عوام سے کیے گئے حق خود ارادی کے وعدے سے مسلسل روگردانی، پاکستان کے ساتھ باہمی تنازعات کے منصفانہ تصفیے کے لئے مذاکرات کی میز پر آنے سے گریز خاص طور پر قابل ذکر ہیں،بھارت کی بے جا طرفداری اور پشت پناہی کا وطیرہ اپنا رکھا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ روز اسی حوالے سے حقائق کی نشان دہی کرتے ہوئے صراحت کی ہے کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجی اور آلات کی فروخت سے جنوبی ایشیا میں عدم توازن پیدا ہوگا۔اس سے بھارت کی جارحانہ فوجی مہم جوئی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کی یہ بے جا ناز برداریاں اور رعایتیں اسے تزویراتی ضبط و تحمل کے نظام کے قیام کی کوششوں میں شریک ہونے سے روکنے کا سبب بنیں گی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے خطے میں عدم استحکام کے لئے بھارت کے سازشی کردار کے ایک ناقابل تردید ثبوت کے طور پر پاکستان میں قید بھارتی جاسوس کا حوالہ بھی دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے را کے کارندے کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے لئے بھیجا تھا لیکن اب بھارت اسے ایک انسانی معاملے کے طور پر پیش کرکے حقائق کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے جبکہ کلبھوشن نے دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے بے شمار پاکستانیوں کے قتل کے منصوبوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت علاقائی امن کے لئے کبھی سنجیدہ نہیں رہا جبکہ کلبھوشن کے علاوہ احسان اللہ احسان اور چک ہیگل کے بیانات سے بھی واضح ہے کہ بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کرتا رہتا ہے۔ان واقعاتی حقائق سے واضح ہے کہ علاقائی امن کے لئے امریکہ، افغانستان اور پاکستان کا اتفاق اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے جب بھارت شرپسندانہ پالیسیاں ترک کردے جس کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کو جنوبی ایشیا کے لئے اپنی حکمت عملی کو متوازن بنانا ہوگا۔

تازہ ترین