• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرمایا ’’کسی قیمت پر ٹینشن نہیں لینی‘‘۔دست بستہ عرض کیا ’’حضور! ٹینشن ہی تو ہم جیسوں کی خوراک ہے کیونکہ ’’ٹینشن کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں‘‘۔ نارمل ہوں تو ٹینس رہتے ہیں۔ ٹینشن کا ایک گھونٹ اندر جاتے ہی ریلیکس کر جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو سانپ سے ڈسوانے کی لت لگ جاتی ہے۔ وہ زہر کا نشہ پورا کئے بنا جی نہیں سکتے بلکہ میرے لڑکپن والے شہر لائل پور میں تو ایک ایسا آدمی بھی تھا جو زبان کے نیچے ڈسوایا کرتا تھا کہ زہر کااثر فوری اورشدید ترین ہو۔ جو آلودہ ترین ماحول میں پیدا ہو کر پروان چڑھے، اسے آپ ’’بیمف‘‘ یا ’’انٹر لاکن‘‘ جیسے پاکیزہ اور صحت افزا مقام پر بھی لے جائیں گے تو وہ اگر مر نہیں جائے گا تو بری طرح مرجھا ضرور جائے گا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر کبھی پیارے پاکستان میں ’’سب اچھا‘‘ ہوگیا تو ہم سب کا بنے گا کیا؟ ایک لمحہ کیلئے تصور تو کریں کہ اگر یہ ہمہ وقت چیختے چلاتے، دھاڑتے پچھاڑتے ٹی وی چینلز چپ چپ سے ہو جائیں تو ہمارے ہمیشہ تنے اعصاب پر کیا بیتے گی؟ نروس سسٹمز تباہ نہ ہوں گے توکیا ہوگا؟ کئی سال پہلے حبیب ولی محمد مرحوم کی اک غزل بہت مشہور و مقبول ہوئی جس کا یہ شعرآج بھی مجھے ہانٹ کرتا ہے؎اتنے مانوس صیاد سے ہوگئےاب رہائی ملی بھی تو مر جائیں گےاسی ’’صحت مند‘‘ ماحول کے مثبت ترین اثرات ہیں کہ اچھے اچھوں کی مت ماری گئی ہے جو حلقہ ایک سو بیس (20) میں جیتنے کی امیدیں باندھے بیٹھے ہیں حالانکہ یہاں تو سب کچھ چار سو بیس (420)پر چل رہا ہے۔ اس حلقہ میں جس طرح بلکہ جس جس طرح سرعام نام نہاد ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، افقی و عمودی طور پر دھاندلیاں رچائی جارہی ہیں۔ وہ سب ٹی وی اسکرینوں پر بھی صبح و شام دیکھا جاسکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ میچ تقریباً تیس سال سے فکسڈ ہے لیکن یہ پھر بھی فتح کیلئے پرامید ہیں تو ان کے حوصلوں کی داد تو بنتی ہے۔ کئی قسم کی دہائی دی گئی لیکن شنوائی ایک کی بھی نہ ہوئی تو چاہئے تو یہ کہ اس سر عام تہہ در تہہ دھاندلی کا بائیکاٹ کرتے لیکن پھر وہی بات کہ کچھ لوگ ٹینشن کھا کر ہی ریلیکس کرتے ہیں، زہر ہی ان کیلئے تریاق کا کام کرتا ہے۔یہ نظام اک ایسے کئی منزلہ خستہ و بوسیدہ مکان کی مانند ہے جسے خود ڈھا کر نئی عمارت نہ بنائی گئی تو یہ منحوس عمارت کسی بھی وقت خود ہی ڈھے جائے گی اورمکین اس کے ملبے تلے اس طرح دب جائیں گے کہ انہیں نکالنا مشکل ہوگا۔ اس بڑھتے ہوئے خطرے کی طرف جان برادر محبی مظہر برلاس نے اپنے کالم مورخہ 15ستمبر میں خوب توجہ دلائی ہے لیکن ہم تو سانپ نکل جانے کے بعد لکیریں پیٹنے والے لوگ ہیں۔ دہشت گردی کا سیلاب بھی جب تک سر سے نہیں گزر گیا، ہم نے سر نہیں اٹھایا حالانکہ بروقت ری ایکٹ کرتے تو جانی نقصان بھی کم ہوتا، لاگت بھی کم آتی لیکن ہمارا اجتماعی کردار اور مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ وقت پر ایک ٹانکے کی بجائے بے وقتے نو ٹانکوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ ترقی کے نام پر اقتصادی تباہی، گاڈ فادرز کی کرپشن، ناانصافی، استحصال، میرٹ کی پامالی، چاپلوسی و چمچہ گیری عروج پر ہونے کے باوجود وہ کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جو ہونا چاہئے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔کیا یہ زوال کا کمال نہیں، ابتری کی انتہا نہیں کہ شہباز شریف کو تو علم ہے کہ ’’جمہوریت میں فیصلے سڑکوں پر نہیں ہوتے‘‘ لیکن برادر کلاں کو یہ بات کوئی نہیں سمجھاسکتا۔ اس سے بھی آگے سپریم کورٹ کا یہ کہنا .... ’’عدالت پر یقین رکھیں سڑکوں پر نہیں‘‘ لیکن ان پڑھوں اور ان گھڑوں کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے جسے اقبال اور طرح بیان کرتا ہے کہ’’کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور‘‘ لیکن یہاں تو کرگسوں نے شاہینوں جیسے میک اپ کرا رکھے ہیں۔ ڈاکو بھی کہتا ہے ’’میں انقلابی ڈاکو ہوں‘‘ اور گنڈکپ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نظریاتی قسم کا گنڈ کپ ہے۔ سپریم کورٹ نے اور بہت سی سپریم باتیں بھی کیں مثلاً’’جو جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے‘‘مکالمے .... ملین ڈالر مکالمے’’آپ نے تو بچوں پر بھی ریفرنس کا حکم دیا‘‘ وکیل’’بچہ کوئی نہیں وہ سب بچوں والے ہیں‘‘ سپریم کورٹ’’JITرپورٹ پرریفرنس ایک دن میں فارغ ہو جائے گا‘‘ وکیل’’پھر مسئلہ کیا ہے۔ جائیں اورفارغ کرلیں‘‘ سپریم کورٹ’’اثاثے 90گنا بڑھ جائیں تو کیا ہم آنکھیں بند رکھیں‘‘ سپریم کورٹ’’اچانک نہیں 15سال میں بڑھے‘‘ وکیل اسحٰق ڈار (صرف 15سال میں؟)کچھ طلائی تاریخی ریمارکس’’آپ کے موکل عدالت کے خلاف ہرزہ سرائی مہم کی قیادت کر رہے ہیں‘‘’’قانون اندھا ہوسکتا ہے، جج نہیں‘‘’’خلاف فیصلہ آنے پر خدشات کا شکار نہ ہوں۔ عدالتوں سے نوازشریف کو ریلیف بھی ملتا رہا۔ آئین پر چلیں گے‘‘’’فیصلہ دیا تو خطرناک ہوگا‘‘’’کیس میں نیب مکمل ناکام ہوا، کیا ریاست بھی ہو جائے؟‘‘حدیبیہ کیس کھلنے والاشریف فیملی کی العزیزیہ اور لندن فلیٹس ریفرنسز میں بھی طلبیڈار کو بدھ کیلئے سمن جاریجاری..... جاری.... جاری....جاریکب سے جاری؟ کب تک جاری؟....مسترد، مسترد، نظرثانی درخواست مستردیہ خستہ و بوسیدہ عمارت خود نہ ڈھائی گئی تو مکینوں کے اوپر آگرے گی اور اس کے ملبے سے مکینوں کو نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ بہتر ہے یہ آسیب زدہ مکان خود ڈھا دیا جائے۔

تازہ ترین