• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین نو میں قارئین کرام سے ابلاغ میں پاکستانی قومی سیاست کے حوالے سے اس تباہ کن حقیقت کا بلا جھجک اعتراف کیا گیا ہے کہ ملک پر مسلط اسٹیٹس کو (ذاتی تشریح، نظام بد)غیر معمولی طاقت کا حامل ہے۔ یہ مطلب برابر آئین و قانون نافذ کرنے باقی معطل رکھنے، نااہل اور ہوس زر کے مارے سیاسی’’قائدین‘‘ کو حاصل سماجی پسماندگی کی طاقت(بشکل ووٹ بنک) بیشتر ریاستی اداروں کی نااہلی، انتظامی اختیارات سے بے پناہ تجاوز کی دیدہ دلیری، مالی بدعنوانیوں سے حاصل ناجائز دولت، تھانہ کچہری کلچر کے عوام دشمن نظام اور میرٹ کو ٹھکانے لگا کر کنبہ پروری کے غلبے کا شرمناک ملغوبہ ہے۔یہ اتنی منفی طاقت کا حامل ہے کہ اس نظام بد نے پاکستان میں دانشورطبقے کی فطری تقسیم کا انتہائی مکاری سے فائدہ اٹھاکراس کے ایک قابل ذکر حصے کو فقط درباری و حواری بنادیاہے، جو سماجی پسماندگی کی طاقت اور اس کی پیداوار حکومتوں کے کتنے ہی غیرجمہوری، غیر آئینی و قانونی اقدامات کی ہر حال میں تائید و حمایت کرکے مکملConfirmistبن چکے ہیں۔ ان کا خود سوچ کر اپنی آزاد رائے بنانا اور تجزیہ کرنا سکت کے باوجود اب جیسے کوئی گناہ ہے، کہ یہ فقط آسودگی پانے والے سرکار و دربار میں اپنا اصل کھوبیٹھے، صد افسوس۔
وکلاء تحریک برائے آزاد عدلیہ کے بعد جب انتخابات ہوئے جمہوریت بحال اور عدلیہ آزاد، مسخ شدہ آئین کا حلیہ، مکمل درست کرنے کا پورا اور آزادانہ موقع ملا، فوج اپنے کام میں سرگرم تھی، سول معاملات کی طرف تانکی جھانکی کمتر ہوئی۔ منتخب حکومت کی ایک آئینی باری بھی مکمل ہوگئی۔ اس صورتحال میں اور وکلاء تحریک (2007)سے پہلے کا قومی سیاسی پس منظر لئے یہ سازگار حالات خود پی پی اور پھر ن لیگ کے لئے اب پھر اقتدار کی باریوں میں اپنی سابقہ مایوس کن حکومتوں کے بعد کا وقت کفارہ کے علاوہ بھی کچھ تھا؟ لیکن اسٹیٹس کو کی ہر دو غالب قوتوں(پی پی اور ن لیگ) کا ملک اور عوام کے لئے بہت کچھ کرنا نہیں بنتا تھا؟ وہ ملک جس سے اسٹیٹس کو کی قوتوںنے اتنا چھین اور لوٹ لیا تھا کہ ان کی آنے والی کتنی ہی نسلوں کی آسودگی ہی یقینی نہیں ہو گئی تھی کہ سماجی پسماندگی کی طاقت اور دانشورانہ بددیانتی کے زور پر ان کے خاندان، شاہی خاندان بھی بن گئے۔ اس کے برعکس اپنی محنت شاقہ پر خوشحال ہوتے ہوتے پاکستانی، امیروں کے ٹیکس کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اٹھانے والے پھر سے غریب ہونے لگے اور ہوتے ہوتے ہماری غربت کا بڑا اور بڑھتا فیصد عالمی مالیاتی حلقوں کی توجہ کا مرکز بننے لگا، جیسے بجلی اور پینے کے قابل پانی کی قلت کا غوغا پورے ملک میں ہے۔ بجلی کے نرخ بڑھے تو بڑے بڑے ٹیکس چوروں کے بل عوام کے اضافی بلوں میں تبدیل ہو گئے۔ آئین کی ضمانتیں جیسے سو گئیں۔ دونوں حکومتیں ٹیکس اصلاحات کی طرف نہ آئیں۔ قرضوں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور قومی بھیک کا سب سے بڑا پروگرام ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ اسلامیہ جمہوریہ کے جمہوری اور اسلامی تشخص پر ایسا داغ لگا کہ چھٹے نہ چھٹے۔ فن کاروں نے اس بھیک سے بھی اپنی اور آسودگی کا ساماں پیدا کر لیا۔
یوں کفارے کا عشرہ، عوامی طاقت اور عوامی عدالت ایسے نشوئوں میں آئین و قانون کی مسلسل اور بدترین دھما چوکڑی میں تبدیل ہو گیا۔ باوجود اس کے کہ ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر ایک نئی حقیقت پیدا ہوئی، پلی بڑھی لیکن بیمار جمہوری عمل میں اس کی سکت محدود ہی رہی۔ اسے جو مواقع ملے کوئی بڑا کام ’’تبدیلی‘‘ کی قیادت بھی نہ دکھا سکی، اسٹیٹس کو جتنا چیلنج ہوا ہو کر جتنا کامیاب ہوا، وہ یقیناً حوصلہ افزا بھی ہے غنیمت بھی لیکن یہ ’’تبدیلی‘‘ والوں کی ہمت بھی ہے۔ میڈیا اور عدلیہ کا وائٹ ہاتھ بھی اور افواج پاکستان کی طرف سے کافی حد تک کفارے کی ادائیگی۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا تو شاید پاناما کا نزول بھی نہ ہوتا۔ قوم کے ایک حصے نے مکمل نہیں تو کسی نہ کسی درجے پر صراط مستقیم اختیار کیا تو قدرت نے اپنا حصہ اس وقت ڈالا جب آئین و قانون اور حلف سے گریزاں حکمراں2018ءکے بعد عوام کے لئے سیاہ اور اپنے لئے چمک والے دور کا خواب دیکھ رہے تھے اور اسے جلسہ ہائے عام میں بیان کر رہے تھے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ قدرتی راستوں، اتنےاسباق و امتحانات اور آزمائشوں کے بعد عشرہ کفارہ میں جو جو کچھ عوام اور ملک کے لئے ہونا چاہئے تھا، نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس، اس دوران (دوبارہ بحالی جمہوریت پر) کرپشن، قرضوں، عوام کی غربت، عدم ادائیگی ٹیکس، بجلی کی چوری، انتظامی دھماچوکڑی اور بیڈگورننس کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، کشکول نہ ٹوٹا۔
پاناماکے فالو اپ میں جو کچھ ہوا جیسے ہوا، جتنا ہوا، کمال نہیں کہ بادشاہ نما کا ہی نہیں، پورے شاہی خاندان کا اور مکمل آئین و قانون کی روشنی میں احتساب، جمہوری عمل کے ساتھ ساتھ چل رہاہے۔ باری بھی پوری ہو رہی ہے، ملک سے فرار، پیشیاں، نوٹس، ضمانتیں، وارنٹ، قانون میں کیا ہے جو نہیں ہو رہا؟ دبی رپورٹیں اور حلفیہ بیان نکل رہے ہیں، عدالتوں میں آنے کوہیں۔ اب کوئی فیملی جج نہیں ہےاور وکیل سب کے تگڑے تگڑے۔ حلقہ 120اسٹیٹس کو سر چڑھ کر بولا اور تبدیلی بھی آئی۔ ایسی آئی کہ گھر گھر داخل ہوگئی۔
گزشتہ روز سینیٹ میںجو کچھ ہوا، اس نے قوم کو سمجھا دیا کہ سمجھو کہ اسٹیٹس کو بہت طاقتور ہے اور ’’تبدیلی قیادت‘‘ کی سکت محدود۔ پی ٹی آئی کے 8سینیٹرز نے جس انتخابی اہلیت کی شق وار ترمیم کے بل پر جس طرح غیرحاضر رہ کر بابائے اسٹیٹس کو جناب نواز شریف کی اہلیت کو ورک اووردیا ہے۔ اس پر تبدیلی کے علمبردار عمران خان چیخ پڑے کہ یہ غیراخلاقی ہے کہ اتنےکم سینیٹرز کی موجودگی میں ایک ووٹ کی اکثریت سے عدلیہ سے نااہل ہونے والے کی بھی پارٹی صدر بننے کی قانونی گنجائش پیدا ہوگئی۔ پی ٹی آئی کے 8سینیٹرز کی اس اہم قانون سازی پر بے خبری اور عدم موجودگی کتنی اخلاقی ہے؟ یا ان کا صرف تنخواہیں لینا ہی قانونی اور اخلاقی ہے؟ سینیٹ میں پی پی کی اکثریت، شق میں ’’نااہل کے پارٹی صدر نہ ہونے‘‘کی تجویز پر پی پی کے پارلیمانی گروپ اور اپوزیشن لیڈر جناب چوہدری اعتزاز احسن نے پیش کی لیکن پی پی کو 37 کے مقابلے میں ن لیگی اور اتحادیوں کے 38ووٹوں نے عدالت سے نااہل کوبھی پارٹی صدارت کا اہل کردیا۔ بہرحال آئین کی بالادستی ہوئی۔ قانون بنا، کالا ہے یا غیرجمہوری ن لیگ نے آئینی راستہ اختیار کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ پی پی سے کسی خفیہ مفاہمت کا نتیجہ ہے یا تحریک انصاف کے سینیٹرز پر اسٹیٹس کو کا سایہ۔ نہ جانے عمران خان اپنی پارٹی کے سینیٹرز کا احتساب بھی کرتے ہیں یا ان کی ڈانگ صرف ن لیگ اور پی پی پر ہی چلتی ہے۔ پتہ یہ چلا کہ جاری جمہوری و احتسابی عمل اسٹیٹس کو اورتبدیلی کا حتمی آخری معرکہ نہیں بلکہ سوال ہی ہے کہ کیا یہ آخری معرکہ ہے؟ نہ اسٹیٹس کو کی طاقت بے حد ہےاور حریفوں کی محدود۔

تازہ ترین