• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف نے اپنے مخالفین کو ایک مرتبہ پھر غلط ثابت کردیا

اسلام آباد (احمد نورانی)نواز شریف نے، جو برطانیہ میں کینسر سے لڑنے والی اپنی اہلیہ کی دیکھ بھال کے لئے وہاں موجود تھے، میڈیا کے ان تمام ’’استادوں‘‘ کو غلط ثابت کر دیا ہے جنہوں یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ پی ایم ایل ن کے بانی رہنما اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے واپس نہیں آئیں گے۔

نہ صرف یہ کہ قیاس آرائیاں تھیں کہ نواز شریف اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے وطن واپس نہیں آئیں گے بلکہ یہ مکمل ’’کہانیاں‘‘بھی چل رہی تھیں کہ ایک نئی حکمت عملی کے تحت ن لیگ کے رہنما پارٹی اپنے چھوٹے بھائی کے حوالے کر دیں گے اور یہی نہیں کچھ لوگ تو یہ تاثر بھی دے رہے تھے کہ سب کچھ نواز شریف اور کچھ طاقتور قوتوں کے درمیان ایک ’’ڈیل‘‘ کے تحت ہو رہا ہے۔

دوسری جانب میڈیا کے مختلف اداروں کے ذریعے متوازی طور پر تبصروں کا ایک سلسلہ چل رہا تھا کہ نواز شریف کی خود ساختہ جلاوطنی ان کے کارکنوں کا حوصلہ پست کر دے گی۔

میڈیا اور سوشل میڈیا پر کئی سیکورٹی کے ماہرین خاص طور پر واٹس ایپ گروپ پر تبصرے کر رہے تھے کہ نواز شریف اپنی جماعت ایم کیو ایم کے بانی کی طرح لندن سے چلائیں گے اور اس مرتبہ برطانوی دارالحکومت سے حکومت چلانے کا منفرد تجربہ کیا جائے گا۔ تصورات کی کوئی انتہا ہی نہ تھی اور یہ تقریبا تمام تجزیوں سے ’’ثابت شدہ‘‘ تھا کہ نواز شریف، ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے رہنما، اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ سرکاری اعلان پر کہ نواز شریف وطن واپس آر ہے ہیں اور منگل کو احتساب عدالت کے سامنے پیش ہوں گے، ان ہی تجزیہ کاروں نے واپسی کے فیصلے کی تعریف کرنا شروع کر دی۔ تاہم وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر انہیں یہ کہہ کر غلط ثابت کر دیا کہ نواز شریف کا واپس آنے کا فیصلہ نیا نہیں ہے اور وہ اپنے شیڈول کے مطابق واپس آرہے ہیں۔ یہ سب کیا تھا جس سے خبریں دیکھنے والے ناظرین اور قارئین ان دنوں گزرے ہیں؟نواز شریف کے خلاف متحرک اور مخالف سیاسی جماعتوں میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ شریف خاندان کے ایک اہم ترین رکن کے کینسر کے علاج اور کئی آپریشنوں کے دوران یہ خاندان کس اذیت اور تکلیف سے گزر رہا ہے۔ حکومت اور حکمران جماعت پر مسلسل حملے کیے گئے اور کوئی بھی عوام کو مسلسل گمراہ کرنے پر معذرت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی قوتوں کو ہمیشہ بدنام کیا جاتا ہے اور ان کی کارکردگی کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ انہوں نے ملک کے لئے کیا حاصل کیا ہے۔ جے آئی ٹی اور اس کی رپورٹ کی پرزور طریقے سے پیروی کرتے ہوئے اپنے حتمی فیصلے میں معزز عدالت ایک واحد نکتہ بھی سامنے نہیں لا سکی جس سے سابق وزیراعظم نواز شریف یا ان کے اہل خانہ میں سے کسی کا کوئی غلط کام ثابت ہوتا۔ ریفرنس دائر کرنے کے لئے نیب کو محض الزامات حوالے کر دیے گئے اور بیورو کو الزامات کی تحقیقات کرنے کا کوئی آپشن بھی نہیں دیا گیا۔ نیب کے پاس کوئی آپشن نہیں رہا سوائے اس کے کہ وہ ریفرنس دائر کرنے کے لئے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر مکمل انحصار کرے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں محض ان الزامات کو ڈسکس کیا گیا ہے جو میڈیا میں رپورٹ ہوئے اور جنہیں درست ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ رپورٹ میں کچھ کاغذات بھی شامل ہیں جو مبینہ طور پر بیرونی حکومتوں سے غیرقانونی طور پر حاصل کیے گئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کو بتایا گیا ہے کہ وہ جعلی ہیں یا ان میں جعل سازی کی گئی ہے۔ برطرف وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمات اصل میں پاکستان میں عدالتوں کا ٹرائل ہے کیونکہ نیب پر کسی بھی صورت میں ریفرنس دائر کرنے پر دباؤ ڈالا گیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر میں کوئی اہم بات نہیں ہے۔ نیب کے حکام اصل میں ان ریفرنسز کو اون نہیں کرتے اور پراسیکیوٹر ذہنی طور پر ان کا دفاع کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ نیب کے تفتیش کاروں نے جے آئی ٹی کی جانب سے لگائے گئے زیادہ تر الزامات پر اپنے طور پر کبھی ان پر بھرپور طریقے سے کام نہیں کیا ہے۔ احتساب عدالتوں اور نیب کے پراسیکیوٹرز پر مقدمات کو ’’ثابت‘‘ کرنے کے لئے زبردست دباؤ ہے جبکہ ان کے پاس کوئی ایسا مواد ہی نہیں ہے جس پر عدالت میں مقدمے کے دوران انحصار کیا جاسکے۔ نواز شریف کی طرف کے لوگ جے آئی ٹی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو احتساب عدالتوں میں غلط ثابت کرنے کے لئے قانونی نکات اور شواہد سے پوری طرح لیس ہیں۔ یہاں تک کہ نیب حکام کا بھی خیال ہے کہ شریف خاندان اور اسحق ڈار کے خلاف ریفرنس میں کوئی ایسا مضبوط نکتہ موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر ملزمان کو سزائیں دی جاسکیں۔ یہ ایک مختلف کہانی ہوگی اگر کسی نئی اصطلاح کی کوئی کھینچ تان کر کی گئی تشریح کو استعمال کرتے ہوئے کسی نئے نکتے یا الزام پر کوئی سزا دے دی جائے۔ نیب حکام کے مطابق احتساب عدالتوں میں کاروائی کے دوران جے آئی ٹی کے تمام ارکان اور ان سے جو غیرملکی ریاستوں سے کچھ کاغذات لائے یا ملک کے اندر سے دستاویزات جمع کیں، سے سوالات اور جرح ہوگی۔ نیب حکام کا کہنا ہے کہ کیوں کہ انہوں نے کبھی تفصیل سے ان پر کام نہیں کیا یا چار ریفرنسوں میں لگائے گئے الزمات کی بھرپور تحقیقات نہیں کی ہیں اس لئے ان کا تمام تر انحصار جے آئی ٹی ارکان اور ان کی جرح پر ہوگا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر جے آئی ٹی کے ارکان ثابت کر دیتے ہیں کہ انہوں نے خود دستاویزات حاصل کی ہیں، ثابت کردیتے ہیں کہ یہ دستاویزات پیش کرنے کےقابل اور اصلی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ کس طرح ان کے خیال میں یہ دستاویزات کوئی غلط کام ثابت کرتی ہیں تو شریف خاندان کے خلاف مقدمات میں کوئی دم ہوگا ورنہ بصورت دیگر موجود حالت میں کسی ریفرنس میں کوئی مضبوط نکتہ نہیں ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن پارٹیاں بہت پختگی سے یہ یقین رکھتی ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ نے تمام الزامات ثابت کر دیےہیں اور یہ کہ اس میں شریف خاندا ن کی تمام مبینہ کرپشن اور غلط کاموں کا ثبوت موجود ہے۔ یہ اپوزیشن لیڈر مقدمے کی میرٹ پر دلیل نہیں دیتے بلکہ انہیں سو فیصد یقین ہے کہ شریف خاندان کو ان تمام ریفرنسز میں سزائیں ہوں گی۔

تازہ ترین