• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی مدبرین، معاشی مفکرین، عسکری ماہرین اور دیگر اہل علم و دانش کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی ملک کی سلامتی کا انحصار دوسرے عوامل کے ساتھ اس کی مضبوط معیشت اور معیشت کا دارومدار امن عامہ کی پائیدار اور مستحکم صورت حال پر ہے۔ یہ ایک جامع اور تفصیل طلب موضوع ہے جس پر کراچی میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے بدھ کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کی موجودہ سیاسی، معاشی اور فوجی صورت حال کے تناظر میں اپنی فہم و فراست اور عسکری تجربات و مشاہدات کی روشنی میں تفصیل سے روشنی ڈالی۔ آرمی چیف عام طور پر اپنی گفتگو ملکی دفاع اور پیشہ ورانہ دلچسپی کے موضوعات تک محدود رکھتے ہیں مگر سیمینار کا موضوع ’’معیشت اور سلامتی کے درمیان رابطہ‘‘ تھا، چنانچہ جنرل باجوہ نے معمول سے قدرے ہٹ کر ملکی معیشت اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو اجاگر کرنے کے لیے ملک کو درپیش مختلف چیلنجوں کا بھی احاطہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی تمام قومیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اقتصادی استحکام اور قومی سلامتی کے درمیان توازن پر توجہ دے رہی ہیں اس لیے ہمیں بھی ایسا توازن یقینی بنانا ہو گا جو ہمارے لوگوں کے لیے پائیدار امن اور خوشحال مستقبل کی ضمانت بن سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلامتی اور معیشت جڑواں حقیقت ہیں۔ پاکستان میں اندرونی سکیورٹی کی صورت حال کچھ مسائل کے باوجود بہت بہتر ہے۔ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو ہم نے شکست دے دی ہے تاہم نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے جامع کوششوں کی ضرورت ہے ملکی معیشت ملے جلے اشاریے پیش کر رہی ہے ترقی میں اضافہ ہوا ہے۔ انفرا سٹرکچر اور توانائی کے معاملات میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن قرضے آسمان پر چلے گئے ہیں اور تجارتی توازن ٹھیک نہیں۔ جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کم ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران بحرانوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے مشرق میں جھگڑالو بھارت اور مغرب میں غیر مستحکم افغانستان ہے۔ ہم دنیا کے سب سے زیادہ کشیدگی والے خطوں میں سے ایک میں رہتے ہیں۔ ہمارا خطہ ڈوبا تو سب ڈوبیں گے ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ کسی ملک کی سکیورٹی سیاسی، اقتصادی، فوجی، سماجی، انسانی اور ماحولیاتی سمیت مختلف عوامل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ سی پیک راہداری محض انفرا اسٹرکچر اور بجلی کے منصوبوں کا مجموعہ نہیں۔ یہ دراصل مکمل ترقیاتی پلیٹ فارم ہے اس کی تکمیل اور فوائد کا انحصار سکیورٹی پر ہے بیرونی عناصر اسے ہدف بنائے ہوئے ہیں ہم نے سکیورٹی محاذ پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اب ٹیکس کی بنیاد میں وسعت مالیاتی ڈسپلن اور اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل کو یقینی بنا کر اقتصادی طاقت کے ذریعے سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ جنرل باجوہ نے سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے کئے جانے والے فیصلوں پر بروقت عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیااور کہا کہ اس سلسلے میں مدرسہ اصلاحات بھی ضروری ہیں۔ اقتصادی استحکام کے حوالے سے آرمی چیف کے مشاہدات قابل توجہ ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں، کرنٹ خسارے اور میکرو استحکام کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی ہے اور کہا ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کے لیے ملک کو31 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ اس کے پاس صرف 18ارب ڈالر کا ذخیرہ ہے۔ اگرچہ وزارت خزانہ نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے جبکہ درآمدات میں ساڑھے سات فیصدکمی ہوئی ہے نیز غیر ملکی سرمایہ کاری میں 155فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن یہ بات پریشان کن ہے کہ اب بھی مجموعی طورپر ملکی معیشت پرکئی سوالیہ نشان ہیں۔ ان حالات میں قومی سلامتی اورملکی معیشت دونوں کے حوالے سے آرمی چیف کے مشاہدات پر حکومت، تاجروں اور قوم، سب کو سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے اوردرپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مربوط اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔

تازہ ترین