• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وکلاء ہائوسنگ سوسائٹی کیلئےقانون کے دائرے میں اقدامات اٹھائیں ،سپریم کورٹ بار

Todays Print

اسلام آباد (نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہاگیا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبران کو اس وقت سخت صدمہ ہوا جب انہوں نے 14اکتوبر 2017ءکے روزنامہ جنگ اور دی نیوز میں یہ خبر پڑھی کہ ʼʼاپنے ہی کیس میں ججʼʼیہ چیز صحافت کے مروج اصولوں کے خلاف ہے کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا موقف لئے بغیر ہی کیس کی سماعت کو متنازعہ اور یونیک قرار دے دیا گیا ہے ،اسلام آباد شہر سے متعلق یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہے بلکہ بیس سے تیس ہائوسنگ سوسائیٹیوں کے لئے یہاں پر ایکوزیشن ایکٹ 1894کے تحت اراضی ایکوائر کی گئی تھی ،اس خبر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وکلاء کا رہا ئشی سہولت پر کوئی حق نہیں بنتا ہے ، ملک بھر میں صحافیوں سمیت دیگر پیشوں کے افراد کو رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لئے عوامی مقاصد کے طور پر ہی اراضی ایکوائر کی جاتی رہی ہے ،یہ خبر جان بوجھ کر اور بدنیتی سے شائع کی گئی ہے حالانکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس مقصد کے لئے ایک سال قبل اب تک 5ارب روپے جمع کروا چکی ہے ، اور ابھی تک اراضی کے حصول کا کام عملی شکل اختیار نہیں کرسکا ہے ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق اور موجودہ صدور اور اٹارنی جنرل کا نام لینا مزید تضحیک آمیز ہے حالانکہ یہ بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبرہیں اور پلاٹ حاصل کرنا ان کا بھی حق ہے ، ہم سب کا متفقہ خیال ہے کہ سینیئر وکلاء کے نام لینے کا مقصد انہیں بدنام کرنا اور یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ یہ وکلاء ،ججز کے ساتھ مل کرا یکوزیشن ایکٹ کو استعمال کرکے اراضی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، یہ بات نہاییت افسوسناک ہے کہ رپورٹر اور ایڈیٹر نے اس بات کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے کہ سرکاری ہائوسنگ سوسائیٹیوں میں بھی ریٹائرڈ ملازمین کا کوٹہ رکھا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبر رہنے والے ججز کو بھی اس سکیم میں پلاٹ دینے میں کون سی غلط بات ہے؟ساری رپورٹ ہی ظاہر کرتی ہے کہ اصل حقائق کو جان بوجھ کر چھپاتے ہوئے یہ تاثر پید اکرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے نظام انصاف کو استعمال کررہے ہیں،یہ سب کچھ غلط ،بدنیتی پر مبنی اور تضحیک آمیز ہے ،وکلاء کمیونٹی کے لئے اراضی کا حصول عوامی مقاصد کے دائرہ میں آتا ہے ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن،سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائوسنگ فائونڈیشن نے اس سلسلے میں اب تک جو بھی اقدامات اٹھائے ہیں وہ سب قانون کے دائرے کے اندر ہیں،ہمارا یہ بھی متفقہ خیال ہے کہ کچھ عرصہ سے اعلیٰ عدلیہ کے ججز اور وکلاء کی تضحیک کا ایک سوچا سمجھا سلسلہ جاری ہے اور یہ خبر بھی اسی کی کڑی ہے ،

اخبار کی انتظامیہ کو کہاجاتاہے کہ وہ فوری طور پر اس خبر کی تردید شائع کرتے ہوئے غیر مشروط معافی مانگے بصورت دیگر وکلاء کمیونٹی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کا قانونی راستہ اختیار کرے گی۔ دریں اثناء رپورٹر فخر درانی نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پریس ریلیز میں جاری بیان کے جواب میں کہا ہے کہ بار نے ʼʼاپنے ہی کیس میں ججʼʼکے عنوان سے شائع خبر کے کسی ایک امریا مواد کوچیلنج نہیں کیا ہے، یہ رپورٹر اپنی سٹوری پر قائم ہے۔

تازہ ترین