• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاستدانوں کی چکر بازیوں کا عمل جاری ہے۔ کبھی کوئی بہانہ تو کبھی کوئی، جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دئیے جانے والے شخص اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد کے مقدمات احتساب کورٹ میں چل رہے ہیں۔ نااہل شخص اور ان کے خاندان نے عدالتوں سے عجیب مذاق شروع کر رکھا ہے۔ ایک خاندان کے پانچ افراد کے خلاف ایک ریفرنس کی سماعت ہورہی ہے، کبھی باپ پیش ہوتا ہے تو کبھی نہیں ہوتا۔ کبھی بیٹی پیش ہوتی تو کبھی نہیں ہوتی۔ یہی صورتحال داماد ا عظم کی ہے، رہے بیٹے تو وہ پیش ہی نہیں ہورہے ، ان کی بہن کہہ رہی ہے کہ میرے بھائیوں پر پاکستان کا قانون نافذ نہیں ہوتا۔ بڑ ی عجیب صورتحال ہے خاندان کے افراد اور ان کے حواری ایک تسلسل سے چکر بازیاں کررہے ہیں، مثلاً وہ میڈیا کے روبرو کہتے ہیں کہ’’ہم قانون کا احترام کرتے ہیں، عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، جھوٹے مقدمات کے باوجود عدالتوں کا سامنا کررہے ہیں، ہمیں سیسلن مافیا کہا گیا مگر ہم تو عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں‘‘۔ عدالتوں میں پیش ہونا اچھی بات ہے مگر پاکستانی قوم کو عدالتوں میں پیش ہونے والی خاتون یہ بتادیں کہ آخر ان کے بھائیوں پر کیوں پاکستانی قانون نافذ نہیں ہوتا، کیا ان کے پاس جو دولت ہے وہ پاکستان کی نہیں ہے؟ کیا یہ درست نہیں کہ ان کے خاندان کے افراد کبھی خود پیش نہیں ہوتے، کبھی ان کے وکیل پیش نہیں ہوتے، بیماریوں کا بہانہ بناتے ہیں، کیا یہ درست نہیں کہ یہ سب کچھ تاخیری حربوں کے طور پر ہورہا ہے؟ کیا یہ بات ٹھیک نہیں کہ یہ تاخیری حربے اس لئے کئے جارہے ہیں کہ اس دوران پارلیمنٹ سے اپنے حق میں قانون سازی کروالی جائے؟ کیا یہ بات ٹھیک نہیں کہ مقدمات کو لٹکانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ لندن کی جائیدادوں میں سے کچھ کو فروخت کردیاجائے تاکہ دولت ہاتھ آجائے؟ کیا یہ درست نہیں کہ پچھلی پیشی کےموقع پر عدالت میں ہلڑ بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔ کیا یہ عدالتوں پر حملے کے مترادف نہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ نومبر1997 میں ن لیگی رہنمائوں اور کارکنوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا؟ کیا یہ بات غلط ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں قطری خط پیش کیا؟ کیا یہ بات درست نہیں کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں غلط بیانیاں کیں، کیا یہ درست نہیں کہ نااہل شخص نے قوم سے خطاب کے دوران ، قومی اسمبلی میں ایوان کے ا ندر اور پھر عدالت میں مختلف مؤقف اپنایا؟ نااہل شخص کی بیٹی خود ہی بتادیں کہ ا نہوں نے نومبر 2011کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ’’میری سینٹرل لندن میں تو کیا، پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہے‘‘، پھر ستمبر2017 میں ایک اور ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ’’میرے ایک ارب کے ڈکلیئر اثاثے ہیں جس کا میں ہر سال ٹیکس ریٹر ن بھرتی ہوں‘‘۔ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات سچی ہے، اس کی وضاحت خود مریم نواز ہی کرسکتی ہیں۔ وہ قوم کو بتائیں کہ انہوں نے2011میں سچ بولا تھا یا پھر2017 میں سچ بولا ہے؟ لگے ہاتھوں وہ یہ بھی بتادیں کہ ان کے بھائی لندن میں کیا کاشت کرتے رہے ہیں؟ یا انہیں برطانیہ جانے کے بعد کوئی زیر زمین چھپا خزانہ مل گیا تھا؟
جس وقت یہ خاکسار یہ سطور رقم کررہا ہے اس وقت تک بہانے بازیوں کی نئی درخواستیں احتساب کورٹ مسترد کرچکی ہے۔ احتساب کورٹ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر فرد جرم بھی عائد کردی ہے۔
مجھے ایک شکوہ ان تمام دانشوروں سے بھی ہے جو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی اپریل 1986میں پاکستان آمد کے بعد یہ تحریریں لکھا کرتے تھے کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وہ بہت سے مذہبی حوالے بھی دیا کرتے تھے۔ ان دانشوروں نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خلاف عورت کی حکمرانی کے حوالے سے بڑی زور دار مہم چلائی۔ آج وہ دانشور مریم نواز کے گیت گارہے ہیں، آج وہ انہیں مستقبل کی حکمران قرار دے رہے ہیں، پتہ نہیں ان کے نزدیک آج عورت کی حکمرانی کیسے جائز ہوگئی ہے۔ ان ابن الوقت دانشوروں کو قوم سے معافی مانگنی چاہئے ، انہیں چاہئے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ وہ آج سے تیس برس پہلے درست تھے یا پھر آج درست ہیں یا وہ کل جھوٹے تھے یا وہ آج جھوٹے ہیں یعنی یا وہ کل سچے تھے یا پھر آج سچے ہیں؟ اس اہم ترین سوال کا جواب وہی دانشور دے سکتے ہیں جنہوں نے اس سلسلے میں مختلف مؤقف اختیار کیا۔
ایک شکوہ عمران خان سے بھی ہے، یہ شکوہ ان کی پارٹی کے نوجوانوں کا ہے، یہ نوجوان شاکی ہیں کہ پارٹی کے اندر یوتھ ونگ اور خواتین ونگ کی تنظیموں کو توڑ دیا گیا حالانکہ عمران خان کی اصل طاقت نوجوان اور خواتین ہی ہیں مگر بدقسمتی سے ان دونوں شعبوں کی تنظیمیں معطل ہیں۔ آج یعنی جمعہ کے روز تحریک انصاف یوتھ ونگ کے نوجوان الحمراء لاہور میں اسی جگہ کنونشن کررہے ہیں جہاں میاں نواز شریف نے چند روز پہلے کنونشن کیا تھا۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی کے نوجوانوں اور خواتین کے شکوے دور کریں ، ان کی تنظیمیں بحال کریں، آج جو شکوے تھے، میں نے ان پر اپنے حصے کی شمع جلا دی ہے مگر فرازؔ کا شعر پیش خدمت ہے؎
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

تازہ ترین