• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب عوام کو باشعور بننا ہوگا تحریر …سیدمنہاج الرب

اب عوام کو باشعور بننا ہوگا! جی ہاں یہ اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور حقیقت ہے ۔ ویسے بھی سوشل میڈیا نے ایک عام آدمی کی معلومات میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ لہذاضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اب حقیقت حال کوسمجھیں اور اپنے نفع ونقصان کافیصلہ خود کریں۔ ایک دوسرے پہ الزام تراشی کرنے اور خراب زبان استعمال کرتے ہوئے مظلوموں کا ہمدرد بننے والے سیاستدانوں کی اصلاح کرنی ہوگی کہ اب باتوں اور نعروں کی سیاست سے اقتدار حاصل ہونا ممکن نہیں نہ ہی سبز باغ دکھادینے سے ۔بلکہ اپنے منشورکو ترتیب کے ساتھ بیان کرنا ہوگا۔ مثلاً اگر غریبوں کی جماعت کا لیڈر ہے اور غریبوں کے حق میں بات کرتا ہے تو اسے یہ تفصیل سے بتاناہوگا کہ غریبوں کے کھانے، پہننے اور رہنے کے لیے اس جماعت کے پاس کیا منصوبہ ہے اور اس منصوبہ کوعملی جامعہ پہنانے کے لیے اس کے پاس کیا کیا حکمت عملیاں موجود ہیں اور وہ کیسے کامیاب ہوسکتی ہیں ؟اور کتنے غریب لوگوں کو پارٹی میں اہم عہدے دیئے گئے ہیں تاکہ غریبوںمیں اعتماد قائم ہوسکے۔ یوں غربت کے خاتمہ کے لیے پارٹی کا " وژن" کتنا واضع ہے۔یہ جاننا عوام کے لیے بہت ضروری ہے۔ بالکل اس طرح جو کرپشن کے خاتمے کے دعویدار ہیں ۔ اور سب پہ کرپشن کا الزام لگاتے ہیں۔ عوام کو ان سے پوچھنا ہوگا کہ کرپشن کی تعریف ان کی نظر میں کیا ہے ؟ اور کرپشن کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے ان پاس کیا جامعہ منصوبہ موجود ہے؟ کیا ان کی جماعت میں تمام لیڈرکرپشن سے پاک ہیں ؟اور ملک کے لیے بڑے بڑے کام کرنے کوتیار ہیں؟ ان سے پوچھا جائے کہ کرپشن کو نچلی سطح سے ختم کیا جائے گا یا اوپری سطح سے ؟ اس دوران کیا کیا مشکلات درپیش آسکتی ہیں کیا ان کا مطالعہ کیا گیا؟ کیونکہ کسی بھی " مشن" کو پورا کرنے کے لے " وژن" اور " پختہ حکمت عملی " کی بڑی ضرورت ہوتی ہے ۔ لفظوں کے استعمال سے مشن پورے نہیں ہوا کرتے۔ اسی طرح اگر کسی کا دعویٰ ملک کو ترقی یافتہ بنانا بلکہ " ایشین ٹائیگر" بنانے کا ہو۔ تو ان سے پوچھنا چاہیئے کہ ملک کی ترقی کرنے کے " اشاریئے" (Indicators)کیا ہوتے ہیں؟ کن کن عوامل پر focus کرتے ہوئے ترقی کی جاتی ہے؟ کیا ان کے پاس ایسے افراد کی " ٹیم" موجود ہے جو اس کام کا تجربہ اور مہارت رکھتی ہو؟ یاملکی ترقی صرف " دوست یاروں کے اجتماع" کے ممکن ہے؟ یا ترقی یافتہ ممالک میں کی گئی حکمت عملی کومن وعن اپنا لینے سے ملکی ترقی ممکن ہے؟ یقیناًہر ملک کے حالات، عوامی مزاج، سرمایہ کاروں کا رحجان، حکومت کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں انہی کو دیکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ کیا ان کے پاس اتنے ذی شعور لوگ موجود ہیں جو ان سب محرکات کا باغور مطالعہ کرتے ہوئے حکمت عملی تیار کریں ،اور قلیل المدت نہیں بلکہ دوررس نتائج رکھنے والی طویل المدت منصوبہ بندی کرسکیں۔ دینی جماعتیں اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے " مدینہ کی حکومت" کی مثال دیتی ہیں۔ لیکن افسوس یہ صرف مثال ہی دے پاتی ہیں۔ لیکن اس مثال کو اپنانے کے لیے موثر حکمت عملی نہیں تیارکرپاتی ہیں۔ بلکہ تنقید برائے تنقید کا سہارا لیکر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو للکارتی رہتی ہیں۔ یعنی عوام کو سنہرے خواب دکھانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور مشن نہیں ہے۔ دوسری طرف بائیں بازوں کی جماعتیں اپنی مظلومیت کی کہانی سناتے ہوئے عوام کے لیے بہت کچھ کرجانے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کا بھی وہی حال ہوتا ہے کہ جتنا کماسکتے ہوکمالوپھر موقع ملے یا نہ ملے۔اس پوری کہانی کا مدعا یہ ہے کہ اب اگلا سال الیکشن کا ہے ،سیاستدانوں نے ابھی سے الیکشن کی تیاریاں شروع کرد ی ہیں۔ ہر کسی کی کوشش ہے کہ کس دوسرے کی برائی کرکے عوام کی ہمددریاں سمیٹی جائیں اور عوام کو سبز باغ دکھائے جائیں۔ لیکن اب عوام کوفیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ سترسالوں کی طرح سیاستدانوں اور " دعوی داروں" پر بھروسہ کریں گی یا ان کو آئینہ دکھاکر، ان سے سوال وجواب کرکے ان سے ان کے منشور پربحث ومباحثہ کرکے ان کا " قبلہ درست" کریں گی اور ملکی سیاست میں اپنا براہ راست کردارادا کریں گی۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین