• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عزت، وقار اوراحترام و ہ ہوتا ہے جو کتابوں میں الفاظ کے لبادے میں ملتا ہے مگر اصل احترام اور عزت وہ ہوتی ہے جو اپنے اعمال، کارکردگی اور کردار سے کمائی جاتی ہے۔ کتابوں میں تو یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جھوٹ نہ بولو، رزق حلال کھائو ، قوانین پر عمل کرو وغیرہ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کتابی باتوں پر ہمارے ہاں عمل ہوتا ہے؟ مطلب یہ کہ کتابی الفاظ کو اگر عمل، کارکردگی اور کردار کی حمایت حاصل نہ ہو تو وہ اپنی ’’حرمت‘‘ کھو دیتے ہیں۔ اس لئے کہ احترام، وقار اور عزت کا تعلق دل اور ذہن سے ہوتا ہے۔ چنانچہ محض حکم دینے سے نہ کسی ادارے یا شخص کا احترام بڑھایا جاسکتا ہے نہ لوگوں کو احترام کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ سچی عزت کمانی پڑتی ہے اس کے لئے محض آئینی و قانونی الفاظ پہ انحصار نہیں کیا جاسکتا۔
ارادہ تھا کہ آج وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی اچانک لاہور آمد، میاں شہباز شریف سے خصوصی ملاقات اور اس عشایئے میں میاں شہباز شریف کو پارٹی قیادت سنبھالنے کا مشورہ دینے والے وفاقی وزیر محترم ریاض پیرزادہ اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دینے والے سابق وزیراعظم جمالی صاحب کی شرکت پر لکھوں گا کیونکہ ٹرپل بریگیڈ کے بریگیڈیر قرار دینے والے ریاض پیرزادہ کا خاص طور پر اسلام آباد سے آنا اور ظفراللہ جمالی صاحب کی بلوچستان سے آمد و شرکت کچھ اشارے ہیں جو غور و فکر کے متقاضی ہیں۔ پھر اس عشایئے میں عزیزم حمزہ شہبازشریف کی خصوصی شرکت اور بیٹی مریم نواز کی غیر حاضری بھی ان اشاروں کو تقویت دیتی ہے اور اس راز سے پردہ اٹھاتی ہے کہ ’’اندر خانے‘‘ کچھ کھچڑی پک رہی ہے، میاں شہباز کو پارٹی صدر بنانے والی لابی متحرک ہوگئی ہے۔ یہ محض تصادم کی سیاست سے کنارہ کشی کے لئے حکمت عملی بنانے کے حوالے سے ملاقات نہیں تھی بلکہ اس کا ایجنڈا قدرے مختلف تھا جس کے پس پردہ کسی تیسری قوت کا دبائو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انتخابی قوانین میں جس ترمیم کے بل بوتے پر میاں نوازشریف مسلم لیگ (ن) کے صدرمنتخب ہوئے تھے، اسے سینیٹ نے ختم کرنے کے لئے بل پاس کردیا ہے۔ اگرچہ ہائی کورٹ نے اس ترمیم کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن اسے سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا جا چکا ہے۔ جناب ظفراللہ جمالی ہوں یا ریاض پیرزادہ، ان کے خلوص پہ شبہ کرنے کی بجائے زمینی حقائق پر نگاہ رکھیں۔ ہوسکتا ہے آپ کو ان کی تجویز پر عملیت پسندی کا غلبہ اور پارٹی کے اتحاد کو بچانے کی خواہش نظر آئے۔ فی الحال اس پیش رفت سے صرف نظر کرتے ہوئے اصل موضوع کی جانب لوٹتا ہوں جس کا تعلق آئینی اداروں کی ’’حرمت‘‘ سے ہے۔ میں حرمت کا لفظ استعمال کرنے سے تھوڑا سا گریزاں ہوں کیونکہ مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ حرمت اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ اور ہمارے نبی پاک ﷺ کے احکامات سے وابستہ ہے۔ سیاسی و صحافتی مقاصد کے لئے لفظ احترام، وقار اور عزت استعمال کرنا چاہئے۔
وزیر داخلہ جناب احسن اقبال کا یہ بیان قابل توجہ ہے اوران کے باطنی ’’غصے‘‘ کا شاخسانہ ہے کہ پارلیمنٹ کی ’’حرمت‘‘ فوج اور عدلیہ جیسی ہونی چاہئے۔ ان کا فرمان سو فیصد بجا ہے کیونکہ پارلیمنٹ عوام کے اقتدار اعلیٰ کی نمائندگی کرتی ہے اور قانون سازی کے حوالے سے اسے دوسرے تمام اداروں پر برتری حاصل ہے۔ ویسے بھی ملک کا آئین ایک مقدس ڈاکومنٹ ہوتا ہے اور ہمارے قومی ادارے عدلیہ فوج پارلیمنٹ آئین کی دین ہیں۔ آئین میں ان اداروں کی حدود و قیود، دائرہ کار اور قومی کردار کا بھی تعین کردیا گیا ہے۔ آئین کی توضیح و تشریح کا اختیار بے شک عدلیہ کے پاس ہے لیکن اس میں ترمیم و اضافے کا اختیار پارلیمنٹ کی ملکیت ہے اور اسی لئے پارلیمنٹ کو بالاتری حاصل ہے۔ مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ’’حرمت‘‘،احترام، وقار، مقام اور عزت کمانی پڑتی ہے۔ اسے محض کتابی الفاظ سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
ظاہر ہے کہ اکثر مسلم لیگی لیڈروں کی مانند وزیر داخلہ بھی اندر سے پیچ و بل کھا رہے ہیں اور غصے کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ شاید ان کو اقتدار کی کشتی ڈولتی محسوس ہوتی ہے اور انہیں محترم میاں صاحب کی نااہلی کا بھی صدمہ ہے۔ اب سیاست کا تقاضا یہ ہے کہ اس صورتحال کا الزام کسی تیسری قوت کو دیا جائے، کسی کو ہدف بنایا جائے اور اپنے آپ کو مظلوم ثابت کیا جائے۔ اسی سیاسی نابالغ اپروچ سے تصادم کا رجحان تقویت حاصل کررہا ہے اور تصادم کے نتائج بہرحال کسی کے حق میں بھی بہتر نہیں ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر عدلیہ اور فوج کے خلاف منظم اور قبیح مہم جوئی کرنیوالوں کو کسی ایجنسی نے اٹھا لیا ہے جس پر محترم میاں نوازشریف نے بھی غم و غصے کا اظہا رکیا ہے اور اسی لہر میں بہتے ہوئے وزیر داخلہ نے یہ بیان دیا ہے مگر کسی مسلم لیگی لیڈر نے عدلیہ اور فوج کے خلاف منفی مہم پر افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ بلاشبہ آزادی اظہار پاکستانیوں کا بنیادی اور آئینی حق ہے لیکن جب یہ راز کھلے کہ ان آئینی اداروں کے خلاف منظم مہم جوئی کرنیوالوں کا تعلق ایک پارٹی سے ہے اور ان میں سے اکثر میڈیا سیل سے تعلق رکھتے اور سرکاری اداروں سے تنخواہ لیتے ہیں تو پھر یہ محض آزادی اظہار کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ سازش کے زمرے میں آتا ہے۔
رہی آئینی اداروں کی ’’حرمت‘‘ تو میں ’’حرمت‘‘ کو کارکردگی، کردار اور عمل سے وابستہ سمجھتا ہوں۔ ہماری نگاہوں کے سامنے ان اداروں کی عزت بڑھتی اور گھٹتی رہی ہے۔ تاریخی طور پر جسٹس منیر کے 1955ء کے فیصلے اور نظریہ ضرورت کی ایجاد سے لے کر 1999ء میں جنرل مشرف کی ’’غداری‘‘ تک سپریم کورٹ ہر آمر اور فوجی مداخلت کو جائز قرار دیتی رہی ہے جس کے نتیجے کے طور پر عدلیہ عوامی نگاہوں میں حکمرانوں کی لونڈی تصور کی جاتی تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے لوگ چیف جسٹس اور ججوں کو نفرت و حقارت سے دیکھتے تھے اور دبے انداز سے اظہار بھی کردیتے تھے۔ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد عدلیہ کی حرمت میں اضافہ ہوا ہے، عوامی نگاہوں میں قدرے اعتماد بحال ہوا ہے اور لوگ عدلیہ کو حکمرانوں کی لونڈی کی بجائے آزاد اور طاقتور ادارہ سمجھنے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عدلیہ مسلم لیگ (ن) کی سنگ باری کا نشانہ بن گئی ہے مگر ابھی تک اکثریتی رائے عدلیہ کےحق میں ہے۔ فوج ہمیشہ پاکستان میں ایک مقدس ادارہ رہی ہے لیکن اسی فوج کو 1971ء میں پاکستان ٹوٹنے کے بعد ہم نے نفرت کا نشانہ بنتے بھی دیکھا ہے۔ خود مشرف کے دور میں وہ مقام بھی آ گیا تھا کہ فوجی افسران کو وردی میں باہر گھومنے پھرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ دس برس میں فوج نے نہ صرف وقار بحال کیا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا ہے۔ آج کل فوج بھی مسلم لیگ (ن) کے نشانے پر ہے۔ رہی پارلیمنٹ تو اس کی آئینی حرمت سے قطع نظر پارلیمنٹ کی عزت اس کی کارکردگی سے منسلک رہی ہے۔ جب پارلیمنٹ عضو معطل بن کر رہ جائے، اس کا قائد اور وزیراعظم اسے اہمیت نہ دیں، جعلی ڈگریوں اور غلط بیانی کے سبب اراکین کی رکنیت ختم کی جائے، پارلیمنٹ کے فلور پر ڈٹ کر جھوٹ بولا جائے، اراکین اسمبلیاں پیسے یا عہدوں کے لالچ میں وفاداریاں تبدیل کرنے کے مرتکب ہوں، اجلاسوں کے دنوں میں شراب کا نرخ بڑھ جائے اور آئے دن اراکین پر سنگین نوعیت کے الزامات لگیں اور پارلیمنٹ ایسی ہو کہ انتخابی فارم میں ختم نبوتؐ کی تبدیلی پر آنکھیں بند کر کے مہر تصدیق ثبت کردے تو ایسی پارلیمنٹ کی حرمت یا عزت رائے دہندگان یا عوام کی نظروں میں کیا ہوگی؟ یہ عزت محض وزارتی حکم نامے سے نہیں کمائی جاسکتی، اسے صرف کردار اور کارکردگی سے کمایا جاسکتا ہے۔ بس اتنی سی بات وزیر داخلہ کو سمجھ لینی چاہئے۔

تازہ ترین