• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی70سالہ تاریخ کی تلخ ترین حقیقتوں میں سے ایک یہ ہے کہ مطلوب حقیقی جمہوری معاشرے کے آئینی حق اور اقدارکے برعکس آخری تین عشروں (1988تا دم) میں مملکت کی حکمرانی اور اس کے ذریعے ریاستی ڈھانچے میں نااہلیت اور غیر ذمہ داری کا غلبہ بتدریج بڑھتا ہوا غلبہ جاری عشرے میں تیز تر ہو گیا۔ یہ جو آج کل صبح شام میڈیا سے لے کر گلی محلوں تک سیاسی ابلاغ اور اجڑتے عوامی سروس کے اداروں میں ان (اداروں) کی بربادی کا ماتم ہو رہا ہے، یہ کرپٹ ترین، نااہل اور ہوس اقتدار میں مبتلا حکومتوں اور اس کے نتیجےمیں قائم ہونے والی فوجی ڈکٹیٹروں کی حکومتوں کا شاخسانہ ہے۔ اس پس منظر میں ہمارے بزرگوں کے بلند درجے کی دوربینی، اعلیٰ ترین سیاسی شعور، علمی تحریک، زور ِ قلم و بیان، منطق اور دلیل کی قوت اور عوام الناس کی نتیجہ خیز تائید و حمایت سے بننے والے پاکستانی قوم گزشتہ ساڑھے نو سال سے سرجھائے ’’بدترین جمہوریت‘‘ کو برداشت کئے ہوئے ہے۔ گزشتہ تیس سال میں ہمارے جملہ اشکال کے حکمرانوں نے بحیثیت مجموعی جو قباحتیں اور خرافات پیدا کرکے پالیں اس کا سب سے بڑا حاصل ِ بد ہے کہ قومی سیاست و اقتدار اور دو ڈکٹیٹر حکمرانوں کے گھڑے سیاست دانوں کے خاندانوں میں مرتکز ہوکر رہ گیا، جو برسوں اور آج اپنی انتہا پر ہماری قومی سیاست کا سب سے بڑا حوالہ ہے۔ اس شکل میںسیاست و اقتدار نے صوبے اور اضلاع کی سطح پر انڈے بچے دیئے بھی اور پہلے سے موجود پالے بھی۔ یہ ہے ہماری قومی سیاست اور مرکز اقتدارکا اصل ڈھانچہ جو جب زیادہ دیمک زدہ ہو کرہلنے لگتا ہےتو نجات دہندہ آدھمکتے۔ ایسے میں قوم ’’پہلے سے بہتر‘‘ اور ’’ان سے بہتر‘‘کی تھیوری سے خود کو تسلی بھی دیتی رہی جو اصل میں خوشی و اطمینان نہیں دھوکا ہوتا تھا۔
آج پاکستان 2007-8 ءسے اتنا بدل گیا کہ عدلیہ اور میڈیا میں نئی جان پڑنے سے سیاسی خاندانوں کی حکمرانی اور فوج کادائرہ کار زیربحث آنے اور فوجی اقتدار کےبار بار منفی نتائج آنے کے تجزیوں اور مہم کے بعد، اگرچہ اسٹیٹس کو کی قوتوں نے پھر بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے بہتر ہےکا بیانیہ گھڑ کر اپنی پرلے درجے کی دھما چوکڑیوں کے ساتھ عوام پر بدترین جمہوریت کی قبولیت تو مسلط کی۔ اللہ کا بڑا کرم یہ ہوا کہ فوج نے اپنے دائرے میں رہنے لیکن اسے نئے تقاضوں اور سلامتی کی نئی قومی ضرورتوں کے مطابق وسیع کرنے کیلئے سول انتظامیہ سے دوررہنے کی جو تازہ ذہنی اور اس کے مطابق اقدامات کئے، اسی کی برکت ہے اللہ سبحان تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ جب قوم کو اپنی حالت بدلنے کا خیال پیدا ہو تو اس کی مدد شامل حال ہو جاتی پاکستا ن میں ناممکن بن جانے والا لازمہ ’’احتساب‘‘ ایسے ہی تو ممکن نہیں بنا کیا پانامہ اللہ کا نزول نہیں؟آزاد و غیر جانبدار عدلیہ کے قیام کا ہوش ہی پیدا نہیں ہوا اس کیلئے تحریک بھی چلی، ہدف بھی حاصل ہوا، عدلیہ سرگرم بھی ہوئی اس کا پیشہ ورانہ انداز کہیں آگے بڑھا، میڈیا ایجنڈا سیٹنگ میں چلا گیا ، انسداد کرپشن، حکمرانی کی مانیٹرنگ ریاستی اداروں کی کارکردگی نیوز رپورٹنگ اور حالات حاضرہ میں ایڈریس ہونے لگی تو جملہ قومی امراض کی تشخیص بھی واضح ہونے لگی، بہت کچھ سامنے آنے لگا لیکن جب ہمیں خود ہوش آیا تو حکمران بوکھلا گئے۔ وہ وجوہات جس سے تخفیف مخبرت کے قوم پر قومی سطح کے مسلط بھیک پروگرام (بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام) اور اس میں بھی کرپشن کی وجووہات بے نقاب ہو گئیں۔ آج صرف پی آئی اے، سٹیل مل، واپڈا، نظام تعلیم و صحت کی بربادی اور بدترین جمہوریت کی ماڈل حکومت کے مقامی حکومتوں (بلدیاتی) کے نظام کو منجمد رکھنے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ 90 وزیرو ں کی بے مقصد کابینہ صوبائی اسمبلیاں اور ان کا وی آئی پی کلچر، ایف بی آر، ایف آئی اے، تھانہ کچہری کا سفارش بھی فقط کرپشن سے اٹا پڑا لاغر عوامی دشمن نظام پاکستان کے اقتصادی و سیاسی استحکام اندرونی سلامتی ، امن عامہ اور عوام الناس کے روز مرہ کے بنیادی اطمینان و سکون و تحفظ کیلئے چیلنج بن کر دندنا رہا ہے۔
اس سنگین صورتحال میں آج پھر پاکستان میںسیاسی و اقتصادی بحرانوں کے قدرتی رد عمل کے طور پر بنا روایتی بیانیہ ’’ٹیکنو کریٹس کی حکومت‘‘ کچھ نیا دل شہریوں کی خواہش ، کسی ادارے یا تنظیم کی تجویز یا آئیڈیا افواہوں یا خواہشات سے خبروں کی شکل اختیار کرتا ہوا جملہ اشکال میں سیاسی ابلاغ اور میڈیا کا فالو اپ بن جاتا ہے۔ آج ایک بار پھر یہ بیانیہ زیر بحث ہے ۔ نیت اور خواہش کی حد تک یہ بیانیہ (ٹیکنو کریٹس کی حکومت) نیک نیتی پر مبنی ہے لیکن یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں، اسی لئے آئین پاکستان میں اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ قوم کے کسی ایک سیکشن خواہ یہ ٹیکنو کریٹس ہوں یا مزدور، علماء ہوں یا دانشور یا کسی علاقے برادری خاندان و مسلک کی ہی حکومت ہو، آئین پاکستان کے مطابق اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کا تسلیم کیا گیا ہے اور تشکیل حکومت کے ذریعے عوام الناس (ووٹرز) ہیں۔ جن کی نمائندہ سیاسی جماعتیں ہیں۔ لہٰذا تشکیل حکومت بذریعہ عام انتخابات اکثریتی جماعت یا اس اور اس کے اتحادیوں کی بن سکتی ہے۔
جہاں تک ٹیکنو کریٹس یعنی قومی زندگی کے مخصوص شعبوں کے اعلیٰ تعلیمیافتہ اور تجربے کار ماہرین کے حکومت میں کردار کا تعلق ہے یہ اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا بمطابق آئین عوام تائید و حمایت سے سیاسی جماعت یا جماعتوں کا منتخب حکومت (بذریعہ عام انتخاب) تشکیل کرنا یوں پاکستان کی فوری اور شدید ضرورت ٹیکنو کریٹس کی حکومت نہیں لیکن منتخب حکومت میں ان کا بمطابق قومی ضرورت کردار ہے۔ جس پر گزشتہ 30سال سے ہماری حکومتوں خصوصاً ا اہل سیاست دانوں پر مشتمل حکومتوں نے اس انجانے خوف سے پابندی لگائی ہوئی ہے کہ ان کے مطلوب کردار کی صورت میں وہ دھما چوکڑی نہیں مچائی جا سکتی جو قومی خزانے کی لوٹ مار اور عوام دشمن اللے تللوں پر مشتمل نام نہاد وی آئی پی کلچر پیدا کرتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں مرضی و مفاد کے مطابق وفاکے پیکر نیم حکیم ہر شعبے کیلئے درکار ہوتے ہیں جو روایت پرست حکمرانوں کو آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ جتنا حکمرانوں کا مطلب و مفاد پورا کرنے میں یکتا ہوتے ہیں۔ اتنا ہی اپنے زیر تسلط وزارت محکمے ادارے کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ ہی شعبے ٹیکنو کریٹس کی سرپرستی میں جلا پاتے ہوئے حقیقی ملکی ترقی اور عوامی فلاح کو ممکن بنانے کی صلاحیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔
ہاں ! ٹیکنو کریٹس اگر اپنی سیاسی جماعت بنا کر عوام الناس کی تائید و حمایت حاصل کرتے ہوئے عام انتخابات میں اکثریتی جماعت حاصل کرنے کا درجہ حاصل کر کے کوئی معجزہ کر دکھائیں تو وہ پاکستان جس نے اگلے آنے والے دو تین عشروں میں اپنی تابناکی کا جلوہ دکھانا ہے۔ ایک عشرے میں یہ ان ہونی ہونی ہو سکتی ہے لیکن ہنوز دلی دور است کو نوں میں لگے اپنی آسودگی کے دائرے میں بند یا ہجرت کر کے دیار غیر پر اپنی کشتیاں جلا دینے والے پاکستانی ٹیکنکو کریٹس کوئی ایسی برین اسٹارمنگ کا اہتمام کریں تو دلی جلد بھی پہنچا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین