• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانون اور قانون قدرت کی دہری لپیٹ اور پکڑ میں آئے روتے پیٹتے، چیختے چلاتے فرسٹریشن کے مارے ہوئے یہ لوگ طعنوں اور بھونڈی جگتوں پر اتر آئے ہیں تو ان پر نہ رونا آتا ہے نہ ہنسی۔ صرف ایک دعا کہ انہیں بدنامیوں اور ذلتوں کو برداشت کرنے کی ہمت حوصلہ نصیب ہو۔’’مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تری رہبری کا سوال ہے‘‘ کے جواب میں معذور مافیا دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہتا ہے ’’رہزنی کو جواز فراہم کرنے کیلئے نظریہ ضرورت ایجاد کئے گئے‘‘۔ سبحان اللہ رہزنوں کی سیاسی اولادیں اپنے بزرگوں کو کیسی وارفتگی اور والہانہ پن سے یاد کرتے ہوئے خود کو کس طرح ناخلف ثابت کررہی ہیں لیکن یہ بات ان کے دھیان میں کیوں نہیں آتی کہ جیسے ان کی مسلم لیگ قائداعظم محمد علی جناح والی مسلم لیگ نہیں، ایک ’’جعلی دستاویز‘‘ ہے۔ اسی طرح آج کی عدلیہ بھی نظریہ ضرورت والی عدلیہ نہیں ورنہ پاناما فرعون کیلئے دریائے نیل کا روپ نہ دھارتا اور یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جو تیرگی زادوں کو ہضم نہیں ہورہی، سمجھ نہیں آرہی۔مسئلہ کیا ہے؟کوئی ٹٹی بھجی، پھٹی پرانی، دیمک زدہ منی ٹریل ہی دیدو، ہذیان کے علاوہ بھی کچھ تو پیش کرو کہ تمہاری جانی پہچانی جائز آمدنیوں سے بیشمار گنا زیادہ جائیدادیں اثاثے کہاں سے آئے؟ اتنی سی بات ہے جسے افسانہ کردیا۔ اس میں بغض، نفرت اور غصہ کہاں سے آگیا اور پھر آخر ان سب کی کوئی وجہ؟ عوام کو بیوقوف سمجھنا درست ہے لیکن اتنا بے وقوف تو بیعانہ دے کر بھی بنوانا ممکن نہیں۔گزشتہ کالم میں بھی یاد دلایا تھا، اس میں کیا شک و شبہ کہ دو اداروں کو چھوڑ کر ہر جگہ تو ظفر حجازی گھسائے ہوئے ہیں جن کی وفاداری کا محور ومرکز نہ ملک نہ قوم ....صرف اور صرف آپ کی ذات شریف ہے۔ ن سے نمک خوار یہ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ ’’مائی باپ‘‘ کے رنگے ہاتھوں پکڑنے جانے پر بھی ان کے ضمیر بیدار نہیں ہوتے کیونکہ سویا ہوا تو جگایا جاسکتا ہے، مردے کو کون جگائے اور مردہ بھی وہ جسے کیڑے کھا چکے ہوں۔حضور! مہذب قوموں نے طویل تکلیف دہ تجربوں کے بعد یونہی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ تم کتنے بھی پھنے خان ہو، اقتدار کی دو ٹرمز، دو باریاں لیکر چلتے بنو گھروگھری جائو کیونکہ تیس تیس سال کے جن جپھے کا نتیجہ ملک وقوم ہی نہیں خود ’’صاحب اقتدار‘‘ کیلئے بھی تباہ کن اور خطرناک ہوتا ہے، اسے ذلیل و خوار ہو کر جانا پڑتا ہے۔ مہذب اور غیر مہذب ملکوں کا تقابلی جائزہ لو، موازنہ کرو تو تم دیکھو گے کہ مہذب معاشروں میں حکمرانوں کی بھاری ترین اکثریت بروقت عزت و احترام سے رخصت ہو جاتی ہے۔ انہیں ذلت و رسوائی کی کٹھنائی اور آگ کے دریائوں سے گزرنا نہیں پڑتا۔ وہ اقتدار کے بعد بھی محبوب اور باوقار رہتے ہیں۔ اچھی اچھی کتابیں لکھتے ہیں، عالیشان فورمز پر لیکچرز دیتے ہیں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو انجوائے کرتے ہیں، ورک آئوٹ کرتے ہیں، اپنے اپنے پسندیدہ کھیل کھیلتے ہیں، بیویوں کے ساتھ لمبی لمبی واکس کرتے ہیں، خوب صورت کتابیں پڑھتے ہیں، پرانے دوستوں سے گپ لگاتے، میوزک سنتے اور موویز دیکھتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے معاشروں میں عیدی امین، شاہ ایران، قذافی، حسنی مبارک، زین العابدین اور صدام ہوتے ہیں، عبرتناک انجام ہوتے ہیں۔’’خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا‘‘یہ وہ بونے، بزوکے اور ری ٹارڈڈ ہوتے ہیں جنہیں ’’سیلف ڈسٹرکشن‘‘ کا لاعلاج مرض عزت اور چین سے نہ جینے دیتا ہے نہ مرنے دیتا ہے۔ نتیجہ؟ وہی جو دکھائی دے رہا ہے اور مدتوں ہماری اجتماعی قومی نفسیات کو ہانٹ کرتا رہے گا۔ مشرف دور میں اک بہت مثبت اور تعمیری قانون سازی ہوئی کہ کوئی شخص دو بار سے زیادہ وزارت عظمیٰ نہیں سنبھال سکتا۔ اس کے پیچھے’’نیت‘‘ جو بھی ہو، فیصلہ صائب اور درست تھا لیکن وژن سے عاری دو سیاسی مہم جوئوں نے اقتدار میں آتے ہی ’’ترمیم‘‘ کردی۔ ان میں سے ایک ’’چالاک‘‘ کا نام آصف زرداری اور دوسرے ’’ہوشیار‘‘ کا نام نوازشریف ہے لیکن قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ ایک کی تو پارٹی ہی اتنی سکڑ گئی کہ اس کا وزیراعظم اب کسی معجزے یا خواب سے کم نہیں کہ ’’اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں‘‘ والی سچوئیشن ہے جس میں کوئی تبدیلی کم از کم مجھے تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ رہ گئے سیلف میڈ قائداعظم ثانی نوازشریف پانامی تو ذرا غور فرمایئے کہ اگر ’’ترمیم‘‘ والی بدتمیزی نہ کی جاتی تو کیا آج نوازشریف کو اسی رسوائی کا سامنا ہوتا؟ فرمایا .... ’’دعا مانگنے سے پہلے سوچ لو کہ کہیں قبول ہی نہ ہو جائے‘‘ اسی طرح سازش کرنے سے پہلے بھی سوچ لینا چاہئے کہ کہیں کامیاب ہی نہ ہو جائے۔ سچ یہ ہے کہ یہ سیاستدان ہیں ہی نہیں۔ ان کی بھاری اکثریت ’’خزانے کی تلاش‘‘ میں نکلے ہوئے ان مہم جو کائو بوائز کی سی ہے جن کا ’’فلسفہ حیات‘‘ آپ نہیں یا گاہک نہیں‘‘ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا اور بدقسمتی سے اس وقت مملکت خداداد میں صبح شام یہی کچھ ہورہا ہے لیکن کب تک؟کب تک اسی طرح بے لگام بھاگتے اور بولتے پھریں گے؟ کب تک یہ نان سٹاپ نان سینس؟ انتہا یہ کہ آصف زرداری جیسا ’’مفاہمتی‘‘ گورو بھی یہ کہنےپر مجبور ہوا کہ ’’نوازشریف سے تعاون ملک دشمنی ہوگا۔ فوج کو غلام بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی، عدلیہ پر حملہ آئین کے مترادف ہے۔ موجودہ صورتحال میں ان سے تعاون ملک دشمنی کے مترادف ہوگا‘‘۔20منٹ تک کٹہرے میں کھڑے رہنے کے باوجود محاورے والے اونٹ کو اندازہ نہیں ہورہا کہ وہ مائونٹ ایورسٹ جیسے پہاڑ کے نیچے آچکا ہے اور جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ اداروں کے خلاف اعلان جنگ ہے تو وہ اس سازش کو اوور سمپلائی کررہے ہیں.... یہ سیدھی سادی ریاست کے خلاف جنگ ہے۔چلتے چلتے علی رضا عابدی کے ٹویٹ کی جھلکی۔’’لندن فلیٹس کی ملکیت کے ثبوت مل گئے۔ نوازشریف کے تینوں بچوں کے خلاف ضمنی ریفرنسز دائر ہوں گے‘‘ نیب ذرائع۔باقی کیا رہ گیا؟؟؟چتر چالاکی، چرب زبانی اور ڈھٹائی کے علاوہ کہ صرف ان ہتھیاروں کی مدد سے یہ جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ ہارے اور ذلتوں کے مارے لوگ۔

تازہ ترین