• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

minhajur.rab@janggroup.com.pk

آجکل موبائل فون کی APPs کے ذریعہ کاروبار کرنے کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ یونی ورسٹیوں میں طالب علموں کو آجرانہ صلاحیت Entrepreneurshipکی جانب راغب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ بجائے نوکری تلاش کرنے کے اپنا کاروبار شروع کریں۔ جس کے لیے Startup کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ کیا ترقی کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے ضروری ہیں؟ یا صرف ٹیکنالوجی کے استعمال سے روزگار کے مواقع؟ یہ وہ نکتہ ہے جس پہ ابھی تک زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ ایک رائے ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ سروسز سیکٹر یعنی خدمات کے شعبے میں انقلاب آچکا ہے۔ اور اس جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بزنس کے بہت سے مواقع پیدا ہوچکے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موبائل فون کی نت نئی ایپس کےذریعے بزنس کیا جائے اور مزید نئی ایپس بناکر نئے بزنس کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ جس کی بدولت ملک میں بے روزگاری کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اور بہت سے کم حیثیت لوگوں کو مالی استحکام میسرآسکتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسری رائے یہ ہے کہ جب تک Real sectors یعنی حقیقی شعبوں میں مکمل ترقی نہیں ہوگی اس وقت تک صرف خدمات کے شعبہ کی ترقی سے ملکی ترقی دیرپا نہیں ہوگی۔حقیقی شعبوں سے مراد ہے زراعت، صنعت و مصنوعات، کان کنی اور کھدائی (mining and quarrying)کے شعبے میں جب تک اپنی صلاحیت کے مطابق پیداوار حاصل نہ کرلی جائے اس وقت تک ملکی ترقی کا اندازہ لگانا مشکل ہیں۔ کیونکہ جب تک ملکی پیداوار ی صلاحیت اور گنجائش سے بھرپور استفادہ حاصل نہ کیا جائے ملکی ذرائع کا مکمل استعمال نہ کیا جائے یہ کیسے ممکن ہے کہ ملکی ترقی کی شرح کا اندازہ کیا جاسکے ؟ ایک تیسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ آخر ہم بحیثیت پاکستانی کوئی چیز " ایجاد" کریں گے؟ یا صرف ایجاد کی ہوئی چیزوں کو استعمال کرکے ہی "تسکین" حاصل کریں گے۔ان لوگوں کا خیال ہے کہ موبائل فون کے apps کے ذریعہ روزگار کے مواقع ہی صرف کیوں تلاش کئے جائیں۔موبائل فون کو نئی شکل کیوں نہ دی جائے؟ یا اس کے آگے کی کوئی تیکنیک کیوں نہ "innovate" کی جائے۔ کیا بحیثیت مجموعی ہمیں صرف Technology user ہی بننا چاہتے ہے یا کبھی Technology inventor یا Technology innovator بھی بنیں گے؟ یہ تین مختلف آراء ہیں۔ اب اس میں سے کون سی زیادہ مستندرائے ہے۔ اس کا فیصلہ اہل حل عقدہی کریں گے۔ لیکن بحیثیت قارئین اور ایک عام شہری ہمیں بھی یہ سوچنا ہوگا کہ ہماری حقیقی منزل ہے کیا؟ ہمیں کن خطوط پہ چلتے ہوئے ترقی کے منازل طے کرنے ہیں۔ دوسروں کی نقالی بہت کرلی اب اپنی پہچان آپ بنانی ہے۔

تازہ ترین