• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہانگیرترین جرمانہ ادا کر کے سزا سے بچ گئے

Todays Print

لاہور (صابر شاہ)پاکستان تحریک انصاف کے نمایاں رہنما جہانگیر ترین کو اگرچہ سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز معزز عدالت کے سامنے غلط بیانات دینے اور کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثوں اور جائیداد کو ظاہر نہ کرنے پر تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے لیکن انہیں خود کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے کیونکہ ججز ان کے خلاف ان سائیڈر ٹرینڈنگ کے الزامات میں گہرائی میں نہیں گئے بصورت دیگر معاملہ کہیں زیادہ بدترین ہوسکتا تھا۔ ترین کے خلاف یہ الزامات اس وقت کے ہیں جب وہ شوکت عزیز کی کابینہ میں (2004تا 2007) وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار تھے۔ اس کیس میں سپریم کوٹ کے بینچ کے سامنے ایس سی سی پی کے بیان کے مطابق ترین نے 2007 میں تسلیم کیا تھا کہ ’’ہوسکتا ہے‘‘ کہ انہوں نے غیر ارادی طور پر قانون کی خلاف ورزی کی ہو۔ ایس ای سی پی نے بینچ کے سامنے بیان کیا تھا کہ ترین نے غیرقانونی طور پر حاصل کردہ 70 اعشاریہ 811 ملین روپے رضاکارانہ طور پر واپس کرنے کی پیش کش کی تھی اور یہ رقم کارپوریٹ ضوابط اور متعلقہ قوانین کے تحت قابل وصول تھی۔ 64 سالہ جہانگیر ترین نے اپنی نااہلی کے بعد دعوی کیا کہ سپریم کورٹ نے ان کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال، قرضوں کی معافی، ان سائیڈر ٹرینڈنگ اور فارم کی آمدنی پر غلط ڈکلیئریشن کے الزامات مسترد کر دیے ہیں اور محض ٹرسٹ ڈیڈ کی تشریح پر نااہل قرار دیا ہے، جس میں انہیں سیٹلر قرار دیا گیا ہے اور جسے برطانیہ میں جائیداد خریدنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ ترین کو چاہیے کہ وہ اپنے ستاروں کے شکرگزار ہوں کہ انہیں اس کیس میں چند برس قبل سزا نہیں ہوئی، جب وہ قانون کی خلاف ورزی کرنے کے بعد ایس ای سی پی کو 73 ملین روپے بشمول جرمانہ اور غیرقانونی منافع ادا کر کے بچ گئے تھے۔ حتی کہ جمعے کے روز بھی سپریم کورٹ ایس ای سی پی سے سوال کر سکتی تھی کہ جہانگیر ترین کے خلاف قانون کی خلاف ورزی کرنے کا اعتراف کرنے کے بعد مزید سخت کاروائی کیوں نہیں کی گئی۔ ویسے عالمی کپیٹل مارکیٹ کی تاریخ اور پاکستان میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں دولت مند، بااثر اور ممتاز اسٹاک بروکرز، بزنس ٹائیکونز کو کپیٹل مارکیٹ میں فراڈ اور ساز باز میں ملوث ہونے پر عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنائی گئیں، بھاری جرمانے کیے گئے۔ جمعہ کو ترین کے خلاف رولنگ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ایس ای سی پی کو چاہے تھا کہ وہ ترین کے خلاف ان سائیڈر ٹرینڈنگ میں ایکشن لیتی۔ کپیٹل مارکیٹ بزنس اور طریقہ کار سے آگاہی نہ رکھنے والے قارئین کی معلومات کے لئے بتایا جاتا ہے کہ ان سائیڈر ٹرینڈنگ یہ ہے کہ دیگر سرمایہ کاروں کو ان معلومات تک رسائی نہیں ہوتی جیسی ان سرمایہ کاروں کو ہوتی ہے جنہیں اندر کی معلومات ہوتی ہیں اور وہ ممکنہ طور پر ان معلومات کی بنیاد پر ایک عام سرمایہ کار کے مقابلے میں بھاری منافع کما سکتا ہے۔ فیصلے کے فورا بعد جہانگیر ترین نے ٹوئٹ کیا کہ ’’سپریم کورٹ کی جانب سے الزامات مسترد کردیے گئے، ایک اختیارات کا غلط استعمال، دو، قرضوں کی معافی، تین ان سائیڈر ٹریڈنگ، چار، زرعی آمدنی کی مس ڈکلیئریشن۔ لندن پراپرٹی کی منی ٹریل تسلیم کی گئی ، پوشیدہ نہیں تھی، 2011 سے بچوں کے اثاثوں میں اس کا اعلان کیا گیا تھا اور سپریم کورٹ نے مجھے محض ٹرسٹ ڈیڈ کی تشریح پر نااہل قرار دے دیا۔ ترین کی ایک اور ٹوئٹ میں کہا گیا، میں نے پاکستان اور پی ٹی آئی کی بہتری کے لئے اپنی پوری توانائی اوراخلاص سے کام کیا۔ مجھے فخر ہے کہ مالیاتی طور پر غلط کاموں کے تمام الزامات اٹھا کر پھینک دیے گئے۔ میں نئے پاکستان کے لئے مسلسل کام کرتا رہوں گا۔ 23 نومبر 2016 کو ایس ای سی پی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے دعوی کیا کہ جہانگیر ترین کوقانون کی خلاف ورزی کرنے پر 73 ملین روپے سے زائد قومی خزانے میں جمع کرانے پڑے تھے۔ ایس ای سی پی نے فاضل عدالت کے سامنے کہا تھا کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز لمیٹیڈ کی جانب سے یونائیٹڈ شوگر ملز کے حصص کی خریداری میں ان سائیڈ ٹریڈنگ کے جرم پر جرمانہ کیا گیا تھا۔

تازہ ترین