• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخو جس کا کہنا کہ بیوی تو ایک بھی زیادہ‘ مگر کیا کریں ایک سے کم ہو نہیں سکتی ‘جسکا دُکھ کہ جب جوان تھا تو جوانوں کی عزت نہ تھی ‘ بڑھاپے کی طرف بڑھا تو لوگ بوڑھوں سے تنگ‘ جسے ایک بار کہا گیا کہ’’ خدا نے تمہیں اس لئے پیدا کیا کہ دوسروں کے کام آسکو‘‘بولا’’پھر دوسروں کو کس لئے پیدا کیا‘‘ اور جسے بتایا گیا کہ’’حُسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے‘‘ کہنے لگا ’’حُسن نہ ہوا موتیا ہو گیا‘‘اسی شیخو کو چند روز پہلے موڈ میں دیکھ کر جب کہا ’’حضور آج تو بانکے نوجوان لگ رہے‘ ‘تو احتیاط بھری خوشی سے وگ سنوارتے بولا’’کیا یاددلا دیا ‘ایک وقت تھا کہ ہدایت کار نذر الاسلام مجھے اپنی فلم میں ہیرو کاسٹ کرنا چاہ رہے تھے ‘‘ اتنا کہہ کر خلاؤں میں گھورتے شیخو سے میں نے حیرت سے پوچھا’’ پھر کیا ہوا ‘‘کہنے لگا ’’ شبنم نہیں مانی‘‘میں نے پوچھ لیا’’وہ کیوں نہیں مانی ‘‘جواب آیا ’’بس جیلسی ‘‘ اب مجھ سے رہا نہ گیا ‘ ’’ جیلسی ہی سہی‘ لیکن شبنم نے فیصلہ ٹھیک کیا‘‘ جب کوئی جواب نہ آیا تو2 ہیٹروں کے درمیان گرم چادر کی بکل مارے شیخو کو میں نے دوبارہ چھیڑا’’ آج تو آ پ ایسے ٹھٹھرے بیٹھے کہ کوئی پانی والی پستول دکھا کر بھی لوٹ لے لیکن یاد رہے کہ سردی اور بے عزتی جتنی زیادہ محسوس کی جائے ‘ اتنی زیادہ لگے ‘‘ یہ سن کر شیخو طنز یہ انداز میں بولا’’اگر اسی طرح کی ایک آدھ ٹھنڈی جگت اور ماری تو واقعی مجھے ٹھنڈ لگ جائے گی ‘‘ میں نے کہا ’’حضور عمر کے اس حصے میں جہاں بندہ 40منٹ لگا کر کپڑے پہنے اور پھر 20منٹ یہ سوچے کہ کپڑے پہنے کیوں ‘اسے سردی کے علاوہ بھلا اور لگ بھی کیا سکتا ہے ‘‘ سگار سلگاتا شیخو بولا’’ پٹھان کا رات تین بجے فون بجا‘ فون اُٹھایا تو دوسری طرف سے بڑی رومینٹک آواز میں لڑکی بولی ’’ خان صاحب آپ جاگ رہے ہیں ‘‘ پٹھان نے غصے سے کہا’’ بی بی یہ ضروری تو نہیں کہ ہر پٹھان چوکیدار ہی ہو‘‘ میں نے کہا’’ حضور ایک تو سوال گندم اور جواب چنا اور دوسرا یہ لطیفہ واقعی اتنا ٹھنڈا کہ اب ٹھنڈ کا احساس ہورہا ‘‘ سگار کا ایک لمبا کش مارکر کہنے لگا’’چلو یہ سن لو ‘گاؤں سے نئے نئے شہر آئے سردار صاحب کو ایک شہری بلی نے اتنا تنگ کیا کہ ایک دن اسے پکڑا ‘تھیلے میں ڈالا ‘دوسرے محلے جا چھوڑا‘ لیکن واپس گھر آ کر دیکھاتوبلی پہلے سے موجود ‘ سردار نے غصے میں دوبارہ بلی پکڑی ‘تھیلے میں ڈالی اور اس بار شہر کے دوسرے کونے جا چھوڑا‘ایک گھنٹے کے بعد جب سردار جی کو گھر سے فون پر بتایا گیا کہ بلی پھر سے گھر پہنچ چکی تو انتہائی غصے سے بولے’’ اس کمینی سے کہو مجھے بھی آکر لے جائے ‘میں راستہ بھول گیا ہوں ‘‘ شیخو نے بات مکمل کی تو میں نے کہا ’’حضور اب واقعی ٹھنڈ لگنے لگی ‘اجازت دیں ‘‘ لیکن جاتے جاتے یہ بتا دوں کہ شبنم کا فیصلہ ٹھیک تھا ‘‘۔
صاحبو ! اکیلا شیخو نہیں ‘ اس وقت ہماری پوری سیاست اور سیاستدان ہی ایسے کہ سوال کچھ ‘جواب کچھ ‘بات کچھ ‘ وضاحت کچھ اور صورتحال یہ ہو چکی کہ گھر کی دیوار بناتا وہ سردار جی یاد آجائے جسے ا یک محلے دار نے جب کہا ’’سردار جی آپ نے تو دیوار ٹیڑھی بنا ڈالی ‘‘تو سردار جی نے جواب دیا’’ تمہارا بیٹا بھی تو جوأ کھیلتا ہے ‘‘ سردار جی کو چھوڑیں ‘ ہمارے ایک سیاسی دوست کی سن لیں ‘ یہ وہی جو پیدا ہونے کے بعد 3سال تک جب نہ بولا تو والدہ ایک پیر صاحب کے پاس لے گئیں اور پیر صاحب کی دعا سے زبان ایسی رواں ہوئی کہ اب گھر والے کیا ہم سب پھر سے پیر صاحب کو ڈھونڈ رہے ‘ جوزبان سے سوچے‘جسکا منہ دماغ سے زیادہ چلے اور جسے جب دیکھا‘ بولتے یا کھاتے ہی دیکھا ‘ جسکا سر اوپر اور اندر سے خالی مگر فخریہ کہے ‘کیا ہوا جو سنوارنے کو بال نہیں ‘ دھونے کو اتنا بڑا منہ تو ہے ‘ جسکی صحت ایسی کہ دیکھ کر انشورنس ایجنٹ تک کا رنگ اُڑ جائے ‘ جسکی یادداشت ایسی کہ خود کہے ’’مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ بچپن میں جب اپنے دومنزلہ مکان کی چھت سے گر اتھا تو زندہ بھی بچا تھا یا نہیں ‘ جسکے بارے میں سب کا اتفاق کہ ’’یہ کوئی راز نہیں رکھ سکتا ‘‘لیکن اسکا کہنا ’’میں تو راز رکھ سکتا ہوں ‘وہ نہیں رکھتے‘ جنہیں میں بتاتاہوں ‘‘ جو مصیبت کے وقت دوست کی مدد کو یوں پہنچے جیسے اسی موقع کی تلاش میں ہو‘ جس کا ہربیان ایسا کہ لگے بلندی سے زمین پر آگرا ‘ جس کی سیاست کے بارے میں ہماری وہی رائے جو لوگوں کی سیاست کے بارے میں ‘ جو بتائے مجھے سیاست سے نفرت ‘مجبوراً سیاست میں آیا‘سیاست میں اپنی کارکردگی سے وہ یہ ثابت بھی کرچکا‘ جس نے پچھلے الیکشن سے پہلے جب یہ کہا کہ ’’اس بار ہماری پارٹی دیانتدار امیدوار کھڑا کر ے گی ‘‘ تو ایک دوست بولا’’ اس بار تو آپ کو کھڑا ہونا چاہیے تھا‘‘ جس کا یہ کہنا کہ وہ عوام جن کا ناس مار دیا جائے ‘ اسے عوام الناس کہیں ‘ جس کا یہ ماننا کہ ہماری حکومتوں کے وعدے خاوندوں جیسے اور عوام سے پیار بیویوں جیسا اور جس کا یہ تجربہ کہ دنیا میں ساسوں کے بعد سب سے زیادہ سیاستدان بولیں ‘ ہمارا یہی دوست کہے کہ ’’عوام کو چاہیے کہ وہ سیاست کے دواصول یاد رکھیں ‘ پہلا یہ کہ سیاستدان حق پر اور دوسرا اصول یہ کہ پہلا اصول ٹھیک ‘‘ اسی کا تجربہ کہ ’’ اب تو یہ بھی ممکن کہ وقت آنے پر مسلم لیگ یہ ترمیم بھی پاس کروا لے گی کہ انتقال کے بعد بھی کوئی شخص پارٹی صدر ہو سکتا ہے ‘اسی کا وجدان کہ ’’ پاکستان میں اب ہرا س سیاستدان کی سیاست خطرے میں جو دھرنے نہیں کروا سکتا اوراسی کی یہ منطق کہ ’’ جو سائیکل نہیں چلا سکتے ‘وہ ملک چلا رہے ‘‘۔
دوستو! جیسے سیاست دو قسم کی‘ ایک جسے کرنا آسان اور سمجھنا مشکل ‘دوسری جسے کرنا مشکل اور سمجھنا آسان‘ ویسے ہی سیاستدان بھی دوطرح کے‘ ایک جنہیں آج تک کوئی سمجھ نہ سکا او ردوسرے وہ جو آج تک کسی کی سمجھ میں نہ آسکے ‘ وقت ثابت کرچکا کہ غلطیوں کے علاوہ ہماری سیاست میں کوئی چیز اوریجنل نہیں اور اتنی ہماری سیاست نے ترقی نہ کی جتنی سیاستدان کر چکے ‘ ہمارے سیاستدان دنیا کے سیاستدانوں سے زیادہ سیاستدان ‘یہ سست رفتاری میں بہت تیز اور قیادت سے زیادہ عیادت کے اہل‘ کہا یہ بھی جائے کہ پاکستان سیاستدانوں ‘ڈاکٹروں اور مجرموں کی جنت‘ مگراپنے سیاستدانوں کی حدتک یہ بات ماننے کو دل نہیں کرتا کیونکہ ہمارے سیاستدان تو اتنے نیک کہ جوتے لینے بھی مسجد جائیں اور پھر جب یہ اقتدار میں آئیں تو مدتِ اقتدار کی یوں پاسداری کریں کہ جیسے وہ سردار جی جسے ایک شادی میں مسلسل کھاتے دیکھ کر جب کسی نے پوچھ لیا کہ ’’سردار جی آخر کب تک کھاؤ گے ‘‘ توسردار بولا’’ میں تو خود کھا کھا کر تھک چکا‘ لیکن کیا کروں شادی کارڈ پر لکھا تھا کہ ایک بجے سے تین بجے تک کھانا ہوگا‘‘ دوستو! ویسے تو ہماری سیاست کبھی بھی قابلِ رشک نہیں رہی لیکن آج کل تو اخیر ہی ہو چکی ‘بہت پہلے لکھا تھا کہ جب تک سچ جوتے پہنے ‘جھوٹ آدھی دنیا کا چکر لگا آئے لیکن آج تو سیاسی گاڈفادرز اور ان کے گینگ نے حالات ایسے کر دیئے کہ نہ صرف سچ ضعیف بابا ہو چکا بلکہ یہ بابا صفائیاں پیش کر رہا اور وہ بھی جھوٹ کو۔

تازہ ترین