• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرپشن کسی بھی مہذب معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔پاکستان میں بھی کرپشن ہر حکومت کا مسئلہ رہی ہے۔گزشتہ 70سالوں کے دوران کرپشن ختم کرنے کی مختلف کوششیں کی گئیں مگر خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے قانون سازی بھی کی گئی مگر معاملہ جوں کا توں رہا۔مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ایک مسلسل پراسس ہونا چاہئے نہ کہ ٹارگٹ۔ہم نے ہمیشہ کرپشن کے خاتمے کو ایک ٹارگٹ لیا۔جس میں ہر مرتبہ ناکامی ہوئی۔ احتساب کے اداروں کو سیاسی وفاداریوں اور اقتدار کو طول دینے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وطن عزیز بہترین احتساب کے نظام سے محروم ہوگیا۔
پاکستان میں کبھی بھی شفاف ،غیر جانبدار اور بے رحمانہ احتساب کا نظام متعارف نہیں ہوسکا۔سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں نیب کا ادارہ قائم کیا گیا۔نیب آرڈیننس متعارف کراکر قومی احتساب بیورو کو وسیع اختیارات دے دئیے گئے۔Burden of proof کے صدیوں پرانے قانون میں بھی تبدیلی کردی گئی۔بہرحال بے رحمانہ احتساب کا نیا ادارہ جلد مسلم لیگ ق کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا گیا۔جنرل (ر) احتشام ضمیر کی لانڈری سے ڈرائی کلین ہونے والے سیاستدانوں کی نیب نے فائلیں بند کردیں۔عام تاثر ابھرا کہ نیب مسلم لیگ ق کے جنم میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔دنیا بھر میں نیب کے سیاسی کردار پر تنقید ہوئی اور عمومی رائے بن گئی کہ نیب دراصل سیاستدانوں کو لگام دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔
پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی حکومت میں آئی۔ایڈمرل(ر) فصیح بخاری کو چیئر مین نیب لگایا گیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایڈمرل(ر) فصیح بخاری کی تعیناتی کے طریقہ کار پر شدید اعتراض کیا اور پھر جلد ہی ان کو گھر جانا پڑا۔اس دوران نیب ہمیشہ عدالتی احکامات کے زیر عتاب رہا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نیب جیسے ادارے کی جتنی ساکھ پی پی پی کے دور میں خراب ہوئی پہلی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ایڈمرل(ر) فصیح بخاری کی رخصتی کے بعد نئے چیئر مین نیب کی تعیناتی کسی بڑے امتحان سے کم نہیں تھی۔حکومت اور اپوزیشن نے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسر چوہدری قمرزمان کو متفقہ طور پر چیئرمین نیب کیلئے نامزد کیا۔دو مرتبہ سیکرٹری داخلہ،چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ،چیئرمین سی ڈی اے،چیف کمشنر اسلام آباد،کمشنر راولپنڈی جیسی اہم پوزیشن پر ذمہ داریاں ادا کرنیوالے قمرزمان چوہدری کے لئے چیئرمین نیب کی آزمائشی ذمہ داری کسی امتحان سے کم نہیں تھی ۔ماضی میں نیب کی جتنی ساکھ خراب ہوچکی تھی،ممکن نظر نہیں آرہا تھا کہ نیب جیسا ادارہ آئندہ چند ماہ بھی کام کرسکے گا۔مگر انہوںنے نیب میں نئی روح پھونکی۔ادارے کی گرتی ہوئی ساکھ سنبھلی۔چن چن کر ایسے ایماندار افسران لگائے گئے ،جن پر مخالفین بھی شاباش دئیے بغیر نہ رہ سکے۔خیبر پختونخوا کی ہی مثال لے لیں۔میجر (ر) شہزاد سلیم کو ڈی جی نیب خیبر پختونخوا لگایا گیا تو نیب کا شدید مخالف عمران خان بھی اس پر خاموش رہا۔اس افسر سے کبھی ملاقات تو نہیں ہوئی مگر ایک مرتبہ نیب کی پرانی فائلوں سے گرد صاف کررہا تھا تو اسی میجر(ر) شہزاد کے اثاثہ جات کا فارم سامنے آگیا۔
اثاثوں کے خانے میں موصوف افسر کی کل کائنات صرف ایک سائیکل تھی۔فخر ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں آج بھی ایسے ایماندار افسران موجود ہیں۔بہرحال ایسے ایماندار افسران کو موقع دینا سابق چیئرمین نیب کی مثبت سوچ تھی۔پھر اچانک حدیبیہ کیس میں روح پھونک دی گئی۔قمر زمان چوہدری جیسے دیانتدار اور زیرک افسر کا کئی ماہ تک میڈیا ٹرائل کیا گیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز بنچ کے سامنے سابق چیئرمین نیب نے اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا اور کہا کہ حدیبیہ کیس پر اپیل کرنا نہیں بنتی اور وہ اس فیصلے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔جس پر نیب کے دفن ہونے کی گونج بھی ہر سو سنائی دی۔مگر چند دن پہلے سپریم کورٹ کے جس معزز بنچ نے حدیبیہ کیس میں نیب کی اپیل کو مسترد کیا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سابق چیئرمین کا موقف درست اور قانون کے مطابق تھا۔قوم کو ایسے بہادر اور نڈر افسران پر فخر ہونا چاہئے ،جو کسی بھی دباؤ کے بغیر وہ لکھتے ہیں جو میرٹ ہوتا ہے۔
کچھ ہفتے قبل والدہ کے علاج کیلئے ملک سے باہر تھا تو ٹی وی اسکرینوں پر نیب پنجاب کے ڈی جی کی جعلی ڈگری سے متعلق خبر چل رہی تھی۔
یقین نہیں آیا کہ اس اہم پوزیشن پر تعینات افسر کے کاغذات کی جانچ پڑتال میں اتنی بڑی غلطی ہوسکتی ہے۔بہرحال رات کو پاکستان رابطہ ہوا اور نیب کے ایک سینئر افسر سے ریکارڈ منگوایا تو پتہ چلا کہ یہ وہی میجر(ر) شہزاد سلیم ہے ،جس نے خیبر پختونخوا میں اربوں روپے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں۔جس کی تین سال کی کارکردگی نیب خیبر پختونخوا کی 14سالہ کارکردگی سے زیادہ بہتر رہی ہے۔بہرحال دستاویزات کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ جعلی ڈگری سے متعلق خبر من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔
ایچ ای سی سے تصدیق شدہ ڈگری سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا بھی حصہ ہے۔مقصد سمجھ میں آگیا کہ ایماندار افسر کے خلاف اور تو کچھ نہیں ملا مگر جعلی ڈگری کی خبر چلا کر دباؤ میں لانا مقصد تھا۔افسوس ہوتا ہے کہ ایماندار افسران کی ملک میں کوئی قدر نہیں ہے۔آج ایک مرتبہ پھر احتساب کا ادارہ میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے۔نئے چیئرمین نیب اچھی شہرت کے حامل ایماندار آدمی ہیں۔جسٹس(ر) جاوید اقبال نے پوری زندگی سویلین بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی جنگ لڑتے ہوئے گزاری ہے۔مگر آج ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کو ایک مسلسل پراسس سمجھیں نہ کہ کوئی ٹارگٹ۔تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ جسٹس(ر) جاوید اقبال وہ فیصلے کریں ،جس سے ان کی زندگی کا اصل مقصد حاصل ہواور سویلین بالادستی کا ننھا منا پودا ایک تناور درخت بن جائے۔اگر کرپشن کے خاتمے کو ایک ٹارگٹ رکھا گیا اور صرف چند افراد کی ذاتی خوشنودی کے لئے فیصلے کئے گئے تو پھر داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں…
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا

تازہ ترین