• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
یہ حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو ایسے سیاستدان تھے جن کا پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد بے پناہ احترام کرتی تھی اور کرتی ہے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں جن کا زیادہ تر تعلق حکمران اور مفاد پرست طبقوں سے رہا ہے، بہرحال دونوں باپ بیٹی پاکستان کی تاریخ کی بے مثال شخصیات تھیں اور دونوں ہی بہت بہادر اور نڈر۔ بھٹو کے نڈر ہونے کے بارے میں ایک شاندار مثال گزشتہ کالم میں دے چکا ہوں، اب میں شہید بے نظیر بھٹو کے کے بارے میں ایک مثال پیش کررہا ہوں حالانکہ میں ایسے کئی واقعات کا عینی گواہ ہوں۔ پاکستان کے اکثر لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے ملک بھر میں ضیائی مارشل لاء کے خلاف چلائی جانے والی پہلی ایم آر ڈی تحریک سے واقف ہیں جو 1983 ء میں چلائی گئی تھی جب یہ تحریک چلائی گئی اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو ملک بدر تھیں، جب وہ واپس وطن لوٹیں تولاہور ایئرپورٹ سے شہر تک لاکھوں کی تعداد نےان کا استقبال کیا مگر چونکہ اس کے بعد بھی ضیاء الحق برسر اقتدار تھے لہذا شہید بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پی پی نے 1986 ء میں ضیا کی حکومت کے خلاف اور عام انتخابات کے لئے دبائو ڈالنے کے لئے ایک اور ایم آر ڈی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا،اس بار شہید بے نظیر بھٹو نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے پارٹی کے رہنما احتجاجی جلوس کی قیادت کرکے گرفتاری پیش کریں گے ان میں خود بے نظیر بھٹو بھی شامل ہوں گی، فیصلے کے مطابق جس دن یہ تحریک شروع ہونی تھی اس دن بے نظیر بھٹو 70 کلفٹن کراچی سے ایک بڑے احتجاجی جلوس کی قیادت کرکے لیار ی تک جائیں گی جہاں وہ اپنی گرفتاری پیش کریں گی مگر اس سے چند دن پہلے بے نظیر بھٹو کی حکمت عملی کو ایک بڑا دھچکا لگا،اس حکمت عملی کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ بے نظیر بھٹو تو پہلے دن ہی گرفتاری دیں گی اس لئے انہوں نے سندھ پی پی کے چند سینئر رہنمائوں کی ایک خفیہ کمیٹی بنائی جو اس وقت کے سندھ پی پی کے صدر مخدوم خلیق الزماں‘ سینئر رہنما پیر مظہر الحق اور چند دیگر سینئر رہنمائوں پر مشتمل تھی اس کمیٹی کو تحریک کے بارے میں تیار کی گئی حکمت عملی حوالے کی گئی تھی اور ان کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ ان کو تحریک کے خاتمے تک زیر زمین رہ کر تحریک کو مانیٹر کرنا ہے اور ان کو کسی طور پر بھی گرفتار نہیں ہونا مگر تحریک شروع ہونے والے دن سے چند دن پہلے مخدوم خلیق اور پیر مظہر الحق کو گرفتار کرلیا گیا، اسکی وجہ سے محترمہ کو کافی دھچکا لگا۔ مجھے یاد ہے کہ جس دن یہ تحریک چلنی تھی اور جس وقت 70 کلفٹن سے محترمہ کی قیادت میں یہ احتجاجی جلوس نکلنا تھا اس مقرر وقت سے کوئی آدھے یا ایک گھنٹے پہلے میں اس جلوس کی رپورٹنگ کرنے کے لئے 71 کلفٹن پہنچا،اس وقت 71 کلفٹن کے باہر پی پی کے کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد پہنچ چکی تھی اور انتہائی پرجوش انداز میں جئے بھٹو کے نعرے لگا رہے تھے، اندر کارکنوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی وہاں مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو انتہائی غصے میں صحن میں نظر آئیں اور انتہائی غصے میں واک کررہی تھیں، مجھے بتایا گیا کہ محترمہ خفیہ کمیٹی کے ممبران کی گرفتاری پر بہت پریشان ہیں اور غصے میں ہیں،اسی مرحلے پر مجھے ایک مشہور صحافی کی آواز سنائی دی، انہوں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ بہتر ہے کہ آپ اس جلوس کی قیادت اور آج گرفتاری دینے کا فیصلہ ملتوی کردیں، پہلے پی پی کے دیگر رہنما اس جلوس کی قیادت کریں اور گرفتار پیش کریں اور زیر زمین رہ کر آپ تحریک چلانے کی رہنمائی کریں ۔مگر محترمہ نے یہ بات نہیں مانی اور کہنے لگیں کہ لیاری میں لاکھوں لوگ میرا انتظار کررہے ہیں،میں وہاں تک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے آج ضرور جائوں گی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ اس بار سب سے پہلے گرفتاری میں پیش کروں گی، چاہے کچھ بھی ہوجائے میں اس اعلان سے پیچھے نہیں ہٹو گی، اسی دوران مجھےمنہاج برنا محترمہ کے قریب نظر آئے،انہوں نے محترمہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جلوس کی قیادت کرتے وقت اپنے دفاع کے لئے ضروری اقدامات ضرور کیجئے گا کیونکہ میں نے یہاں آتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ جس روٹ سے لیاری جائیں گی اس کے دونوں طرف مختلف مقامات پر لاٹھی بردار جمع ہیں، اندیشہ ہے کہ یہ عناصر آپ کے جلوس پر حملہ کریں گے۔ یہ اطلاع دینے پر محترمہ نے منہاج برنا کا شکریہ ادا کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ ہم جلوس کی شکل میں لیاری جائیں گی، راستے میں جو رکاوٹیں ہوں گی ان کا مقابلہ کریں گے، بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک ٹرک پر چڑھ کر انتہائی پرجوش انداز میں اس جلوس کی قیادت کی اور لیاری کی طرف رواں دواں ہوئیں، جیسے جیسے یہ جلوس آگے بڑھتا گیا کئی گنا بڑھتا گیا لہٰذا راستے میں کسی طرف سے بھی جلوس میں مداخلت کرنے کی جسارت نہیں ہوئی، جب محترمہ کی قیادت میں یہ جلوس لیاری پہنچا تو ایسے محسوس ہوا کہ سارا لیاری محترمہ کے استقبال کے لئے باہر تھا، بعد میں جب ایم آر ڈی کی یہ 1986 ء کی تحریک چلی تو ضیا الحق کی فورس نے سندھ کے احتجاج کرنے والے لوگوں اور ورکرز پر تشدد کی انتہا کردی، محترمہ اس وقت تک کراچی سینٹرل جیل میں تھیںان کو سندھ کے مختلف حصوں میں احتجاج کرنے والے لوگوں اور پی پی کارکنوں پر ہونے والے غیر معمولی تشدد کی اطلاعات مل رہی تھیں، اس صورتحال میں محترمہ نے جیلوں کے باہر پی پی قیادت کو پیغام بھجوایا کہ سندھ کے عوام کو اس تشدد سے بچانے کے لئے فی الحال ایم آر ڈی کی تحریک کو روکا جائے، جیلوں سے باہر پارٹی قیادت اس رائے سے متفق نہیں تھی، ان کی رائے تھی کہ اگر اس تحریک کو روکا گیا تو کہا جائے گا کہ پی پی کی تحریک ناکام ہوگئی ہے اور اس طرح پیپلز پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ محترمہ کو یہ فیصلہ تبدیل کرنے پر راضی کرنے کے لئے ان پارٹی رہنمائوں نے یہ مشن پیپلز پارٹی کے انتہائی تجربہ کار اور سینئر رہنما آغا غلام نبی پٹھان کو دیا۔یہ پیغام موصول ہونے کے بعد آغا صاحب نے جیل میں محترمہ سے ملاقات کی اور ان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ تحریک کو نہ روکا جائے، اس سلسلے میں آغا صاحب کی دلیل تھی کہ ایسی تحریکوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس قیادت نے چلتی ہوئی تحریک کو روکا اس کی قیادت ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی مگر محترمہ نے اس دلیل کو بھی ماننے سے انکار کردیا، ان کا موقف تھا کہ میری معلومات کے مطابق اس وقت سندھ کے عوام پر جو تشدد کیا جارہا ہے اس کو اگر نہ روکا گیا تو شاید سندھ کے عوام آئندہ دس بیس سال تک آمروں کے خلاف انگلی نہ اٹھا سکیں لہٰذا بہت ضروری ہے کہ فی الحال سند ھ کے عوام کو اس تشدد سے بچایا جائے،ساتھ ہی محترمہ نے کہا کہ اگر یہ کرنے سے میری قیادت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو میں یہ خطرہ مول لینے کے لئے بھی تیار ہوں۔

تازہ ترین