• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے بچوں کی حفاظت تحر یر:ر ا ئو کا مر ان علی

زندگی اور موت الّلہ کے ہاتھ میں ہے۔ الّلہ سب کے بچوں محفوظ رکھے تاہم آپ ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے جن کے چھوٹے بچے کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے وفات پا جاتے ہیں۔ یہ دُکھ، دل تو چیر جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ صبر آجاتا ہے۔ لیکن جب آپ ایک آٹھ سالہ بچی کو ٹی وی پر ننھے ننھے پاؤں اٹھاتی ایک چھ فٹے آدمی کے ساتھ جاتے دیکھتے ہیں جس نے شاید کہا ہو، زینب تمہارے ابو نے مجھے بھیجا ہے تمھیں لینےآیا ہوں،آؤ تمہیں آئس کریم کھلا کر لاؤں” اور پھر جب اس نے تشد د شروع کیا ہوگا تو بچی نے کیسے چیخیں مارتے ہوئے کہا ہوگا “انکل مجھے چھوڑ دیں۔ اب کوئی بتائے کہ کوئی بھی انسان، کوئی بھی بچوں کا باپ اسے کیسے بھول جائے؟ اگلا سوال یہ کہ زینب ہی کیوں، پہلےایسی ہی گیارہ بے قصوروں کو شہر کھا گیا اور اخبار میں صرف دو لائنوں کی خبر لگی، شُکر ہے کہ زینب معصوم کے صدقے ان معصوم جانوں کے لئے بھی انصاف کے دروازے کھلے اور شاید پورے پاکستان میں جو کہرام مچا ہے اسکے باعث مستقبل میں بہت سی معصوم کلیاں بچ جائیں۔ آر پی او شیخو پورہ نے بڑے مطمئن انداز میں ارشاد فرما دیا کہ پانچ بچیوں کے ریپ کا ڈی این اے ایک ہے، تو سرکار آپ کیا خدانخواستہ ریپ کی سنچری کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر گیارہ سے بارہواں ریپ روکنے کے لئےکون سی سیکورٹی ایجنسیوں سے مدد لی گئی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے “سیریل کیس” پولیس سے ایف بی آئی یا انٹیلی جنس بیورو کو منتقل ہوجاتے ہیں، آپ نے کیوں نہیں کیا۔کیا بچوں کو اس مسئلے پر تعلیم دینی شروع کی گئی۔ کیا پبلک کی آگاہی کا انتظام کیا گیا۔صاحب اقتدار اور طاقتور حلقوں کے اپنے بچے ایسے قلعوں میں رہتے ہیں جہاں ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی نہیں کی جاسکتی ۔ اگر کوئی صحافی امریکہ آئے تو اسے دکھاؤں گا کہ یہ پولیس شیرف (ایس پی) کا گھر ہے جس کے ساتھ والا گھر ایک مالی کا ہے اور یہ جج کا گھر ہے جو کہ اسی محلے میں ہے جہاں حکومتی مالی امداد سے گزر بسر کرنے والے خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ رہتے ہیں۔ انھیں پتا ہے کہ اگر آج کوئی درندہ صفت انسان پڑوسی کا بچہ اٹھائے گا تو کل انکے بچوں کی باری آئے گی اسلئے وہ آفیسر اس علاقے کے بچوں کی دل سے حفاظت کرے گا۔ دنیا میں بڑے سے بڑا مسئلہ حل کرنے کے لئے پہلے اسے جاننا ضروری ہے۔ ہمارے ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نظام انگریز نےحکومت کرنے کے لئے نہیں بلکہ قبضہ چلانے کے لئے بنایا تھا۔ خدشہ تو یہ بھی ہے کہ آج زینب کے غم اور اشتعال کو کم کرنے کی ناکام کوشش میں جس ڈی پی او کو او ایس ڈی بنایا گیا ہے، تین مہینے کے اندر پنجاب حکومت ہی اسے کسی منافع بخش پوسٹ پر نہ لگا دے۔ آئندہ ووٹ ڈالتے وقت یہ ضرور پیش نظر رکھئے گا کہ جس کو ووٹ دے رہے ہیں اس نے کسی مظلوم کا ساتھ دیا تھا یا ظالموں کی صف میں کھڑا تھا ،بہترین انسان کو ووٹ دینا چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ ہم نے اپنی زینبوں کو خود بچانا ہے اور یہ تب ہی ہوگا جب ہم اپنے ہر زخم کو تازہ رکھیں تاکہ ظالم کا حساب لیتے وقت کوئی چُوک نہ ہو۔

تازہ ترین