• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نیب عمران، زرداری کا آلہ کار نہ بنے‘‘ شہباز شریف کی پیشی، ڈیڑھ گھنٹے پوچھ گچھ

Todays Print

لاہور، اسلام آباد (نمائندہ جنگ، مانیٹرنگ سیل) وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ نیب عمران خان اور آصف زرداری کا آلہ کار نہ بنے، میں قانون، آئین کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں جب نیب بلائے گا حاضر ہوجائوں گا لیکن ساتھ ساتھ اپنا کیس لے کر عوامی عدالت میں بھی جائوں گا، احتساب کے نام پر انتقام منظور نہیں، عوامی عدالت میں لوگوں کو کہوں گا کہ کرپٹ آدمی کا گریبان پکڑو۔مجھے جھوٹے کیس میں چائے پر بلوایا گیا، کبھی آصف زرداری کو بھی بلوایا جن پر اربوں کی کرپشن کا الزام ہے، انتقام کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔شہباز شریف نے نیب کی جانب سے بلائے جانے کو بدنیتی پر مبنی قرار دیدیا۔ نیب نے آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں کرپشن کے معاملے پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ڈیڑھ گھنٹے تفتیش کی۔نیب آفس سے وہ سیدھے ماڈل ٹائون پہنچے اور پریس کانفرنس میں نیب کی کارروائی اور وہاں ہونے والی گفتگو اور اپنے موقف سے اخبارنویسوں کوآگاہ کیا۔دوسری جانب قومی احتساب بیورو (نیب) نے شریف خاندان کے خلاف لندن فلیٹس ریفرنس میں ضمنی ریفرنس دائر کردیا۔ نئے ریفرنس میں 7 نئے گواہان شامل کئے گئے ہیں جن میں سے دو کا تعلق برطانیہ سے ہے اور ان کے بیانات بھی قلمبند کرلیے گئے ہیں۔جبکہ نواز شریف انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر) محمد صفدر کے خلاف منگل کو احتساب کورٹ اسلام آباد میں نیب ریفرنسز کی سماعت ہوگی۔سابق وزیراعظم آج نیب عدالت میں پیشی کیلئے پہنچیں گے۔تفصیلات کے مطابق شہباز شریف نے نیب میں پیشی کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں قانون کی حکمرانی کیلئے پیش ہوا، نیب نوٹس پر میرے خلاف بے بنیاد تشہیر کی گئی، نیب نے سنجیدہ بات کرنا ہوتی تو ٹی وی پر میرے خلاف نوٹس کی تشہیر نہ ہوتی، میرے خلاف نیب نوٹس بدنیتی پر مبنی ہے، میرے پاس نیب نہ جانے کی آپشن موجود تھی،لکھ کر دے سکتا تھا، میں قانون کا سہارا لے سکتا تھا مگر پھر بھی جواب دینے نیب گیا۔اگر نہ جانا چاہتا تو نیب کے کئی فیصلوں کا سہارا لے کر پیش نہ ہوتا اور اپنا جواب لکھ کر نیب کو بھیج دیتا لیکن قانونی سہولت کا سہارا لینا مناسب نہیں سمجھا اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک نیب آفس میں موجود رہا۔ نیب آفس میں بہت ہی اچھے انداز میں بات چیت ہوئی، حکام نے تین سوالات کئے جن میں قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی اور غلط کام سے متعلق پوچھا گیا۔شہباز شریف نے کہا کہ بطور وزیراعلیٰ صوبے کا انچارج ہوں اور صوبے میں کسی بھی منصوبے، ڈیپارٹمنٹ یا کمپنیوں کی نگرانی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ قانون کے مطابق صوبائی حکومتیں کمپنیاں بنا سکتی ہیں، کمپنی کے چیئرمین حکومت ہی نامزد کرتی ہے، آشیانہ ہائوسنگ اسکیم غریبوں کیلئے ایک پراجیکٹ ہے، مجھے نوٹس آشیانہ اقبال سے متعلق بھیجا گیا ہے، آشیانہ قائداعظم سب کے سامنے ہے، تحقیقات کرلیں، نیب کو آشیانہ قائداعظم میں ڈیڑھ ارب کی بچت پر کیا کہیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میں نے ملکی پیسہ بچانے کیلئے حدیں پھلانگی ہیں تو کیا یہ جرم ہے، میں نے نیب سے کہا ہے کہ اگر میں نے یہ حد پھلانگی ہے تو دوبارہ بھی پھلانگوں گا، کم لاگت کیلئے پنجاب لینڈ اتھارٹی بنائی گئی، میں عوام کیلئے ایک مرتبہ نہیں بلکہ ہزار مرتبہ ایسے اقدامات کروں گا، آشیانہ ہائوسنگ اسکیم میں کم بولی دینے والے کو ٹھیکہ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی نے اپنے دور میں رینجرز سے زمین واپس دلوائی، میں نے سی ای او کو فورا ًمعطل کیا اور حکم دیا کہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اس کو دیکھے۔ مجھ پر معاہدہ کینسل کرنے کا الزام ہے حالانکہ آشیانہ میں چوہدری لطیف کا معاہدہ سڑکوں اور انفرااسٹرکچر سے متعلق تھا۔آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں کم بولی لگانے والی ٹیم کو ٹھیکہ دیا گیا لیکن میں نے غریبوں کے 450 ارب روپے کرپشن کے منہ سے نکالے اور غریبوں کے لیے مکانات تعمیر کرنے کا حکم دیا۔غریبوں کے لیے آج آشیانہ قائد اعظم میں 1700 مکانات موجود ہیں ،آشیانہ ہائوسنگ اسکیم غریبوں کیلئے ایک پراجیکٹ ہے، آشیانہ ہائوسنگ اسکیم میں کم بولی دینے والے کو ٹھیکہ دیا گیا، رائیونڈ روڈ کا کیس دوبارہ کھول دیا گیا مگر چنیوٹ کو نہیں کھولا گیا، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے پرویز الٰہی کے منصوبے کو فراڈ قرار دیا، آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے تحت 1700گھر بنانے کا ٹارگٹ دیا گیا، گھر بنانے کیلئے 900روپے فی مربع فٹ بولی منظور کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ رائیونڈ روڈ کا کیس دوبارہ کھول دیا گیا مگر چنیوٹ کو نہیں کھولا گیا، پرویز مشرف کے سیکرٹری ارشد وحید کو بغیر بولی چنیوٹ کا خزانہ دیا گیا، نیب نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے باوجود ارشد وحید کو کلین چٹ دی جبکہ ارشد وحید کو اس منصوبے کے 80فیصد شیئر دیئے گئے، رائیونڈ روڈ کیس 2014میں بند کر دیا گیا تھا۔بینکوں میں امیر آدمی کے سوا کسی کی شنوائی نہیں ہوتی۔انہوں نے کہا جن لوگوں نے اربوں روپے کے قرض معاف کروائے وہ سب ٹھیک ہے لیکن ہم نے آشیانہ، میٹرو اور دیگر منصوبوں میں قوم کے اربوں روپے بچائے اسکے باوجود ہمیں بلایا جا رہا ہے۔ صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما پر 33 ارب روپے کا مقدمہ ہے کیا کسی نے پوچھا، نندی پور میں بڈنگ نہیں ہوئی کیا کسی نے زرداری صاحب سے پوچھا، اب سنگین مذاق بند ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سے کہوں گا کہ اپنے عملے سے کہیں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے کاسہ لیس اورحواری نہ بنیں، مجھے کڑا احتساب منظور ہے لیکن احتساب کے نام پر سیاست اور انتقام منظور نہیں ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے الزامات کے باوجود ان دونوں کو نیب نے چائے پر نہیں بلایا مجھے مفروضوں کی بنیاد پر ہی بلالیا۔ اگر یہ ہی اندھیر نگری رہی اور کرپشن کو روکنے والے کو کٹہرے میں لایا گیا اور کرپشن کرنے ولوں کو کٹہرے سے دور رکھا گیا اور ان کی عزت کی گئی تو یہ نظام زمین بوس ہو جائے گا۔ قائداعظم اور اقبال کے نظریات خیالات تعلیمات کی ضد ہے کہ اصل کرپشن پر پردہ پڑا رہے۔ نندی پور، چیچو کی ملیاں، چنیوٹ میں گزشتہ حکومت نے جو کرپشن کی اور بڈنگ کے بغیر اربوں کے منصوبے ناجائز اور غیرقانونی طور پر سونپ دیئے ان کو کسی نے پوچھا نہیں ؟زرداری صاحب اور پرویز الٰہی نے جو کچھ کیا اور بغیر بڈنگ کے منصوبے کس کو دے دیئے ،کیا وہ بادشاہ ہیں۔ نندی پور منصوبے کے حوالے سے انہوں نے بابر اعوان کا بار بار ذکر کیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں چیئرمین نیب سے درخواست کرتا ہوں کہ نیب کو احتساب کے نام پر سیاست نہ کرنے دیں۔ انہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی نے چنیوٹ کا خزانہ 2007ء میں بغیر بڈنگ کے لیز پر دے دیا۔ نیب نے ان کو تو نہیں پوچھا، میں نے کارپوریشن بنائی تو جرم بن گیا۔ خیبرپختونخوا اور سندھ میں بنائی گئی تو کسی نے نہیں پوچھا، وزیراعلیٰ نے کہاکہ کرپشن روکنا دیانت داری سے شفاف کام کرنا جرم ہے تو یہ جرم میں ہزار بار کرونگا۔

تازہ ترین