• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیمار سماج اور علاج خصوصی مراسلہ…عادل عزیز

جرم سے جرم جنم لیتا ہے اور گناہ ہی گناہ کو پیدا کرتا ہے۔تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس زمین پر کوئی ایسا معاشرہ بھی ہو گزرا ہے جو جرائم سے پاک ہو ، البتہ یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ کہیں کہیںجہاںمیں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ گناہ ایسے ہی موجود ہے جیسے جسم میںغیر متحرک جرثومے ،جب انھیں ایسا ساز و سامان، خوراک اور ماحول میسر آتا ہے جو ممد ومعاون ہو تو وہ چڑھ دوڑتے ہیں۔ بین ایسے ہی معاشرے میں جرم اور گناہ کی کہانی ہے۔ وہ ایسے کون سے اسباب ہوتے ہیں جو جرائم کو کو متحرک ہونے میں تقویت بخشتے ہیں؟جب سے کرئہ ارض آدم سے مرصع ہوا ہے کوئی بھی ایسا معاشرہ، ایسی بود و باش، ایسی قوم، ایسا مذہب نہیں ہوا جہاں کی مستقل اقدار کسی دوسرے سے مختلف ہوں۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں جھوٹ کو برا ہی سمجھا جاتا ہے اور بولنا گناہ، چوری بری چیز ہے اور گناہ، بد دیانتی کو گناہ ہی سمجھا جاتا ہے کئی ایک اور ایسی اقدار مو جود ہیں۔ صفائی، پاکیزگی، پاکیزہ کھانے اور پینے پر کیوں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے؟
جسم روح کی پرورش کرتا ہے۔کمزور جسم روح کا ساتھ نہیں نبھا سکتا یا پھر روح کے مکمل نشونما پا جانے پر روح جسم کو چھوڑ جاتی ہے۔ زندگی کے اگلے مقام پر وہی زندگی چل سکے گی جو توانا اور بھرپور ہو گی ،ورنہ وہ نحیف روح پڑی رہے گی ،زندگی رک سی جائے گی اسے آپ موت کہہ لیجئے یا جہنم کہہ لیجئے۔بنیادی طورپر لقمہ حلال کسب حلال سے مشروط ہے ۔جو کچھ بھی جسم میں جاتا ہے وہ خون بناتا ہے یا پھر خون کا حصہ بن جاتا ہے اور جو خون جسم میں دوڑ رہا ہے وہ کس قسم کا ہے پاکیزہ یا پلید؟ یہ خون ہی طے کرتا ہے کہ انسان کس طرح سوچے گا کیسے عمل کرے گا یعنی معاشرے کا مفید آدمی ہو گا کہ مضر (مجرم)۔ آنے والی نسلوں کی تشکیل بھی اسی سے مشروط ہے۔ دیکھئے خون، لہو کا نقطہ محور تو دل ہی ہے اور دل ہی مکمل جسم کو خون کی ترسیل کرتا ہے جس میں دماغ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دل کا تعلق روح سے ہے اوور دماغ کا سوچ سے جو محرک ہے، محرکات کا موجب ہے۔یعنی جرم یا گناہ کا بنیادی تعلق تو رزقِ حرام اور حلال سے ہے۔
اب آگے بڑھئے آنے والی نسلوںکا مستقبل کیا ہے؟ اس وطنِ عزیز کا مستقبل کیا ہے؟ مسلے ہوئے غنچوں کا باغ،دہشت زدہ جنسی ہراساں بچوں کا دیس۔ مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے مگر کوئی مجرم بنے کیوں؟ مجرم کیوں کر پیدا ہو؟ یہ لکھنے کا ہر گز مطلب نہیں کہ ایسے مجرموں کے ساتھ کسی قسم کی ہمدردی برتی جائے یا راقم کے دل میں ہمدردی کے جذبات موجزن ہیں بالکل نہیں۔عمران قصور کا قصور وا ربلکہ پوری انسانیت کا مجرم ، کیوں مجرم بنا؟ریاست اور معاشرے کی مجرمانہ غفلت سے عمران اور اس جیسے دیگر لوگ مجرم بن جاتے ہیں۔ اس ذہنیت کو پروان چڑھانے میں معاشی نا ہمواری بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ بچوں کی آگاہی کیلئے نصاب میںاس کے حوالے سے کچھ شامل کیا جائے گا! چلو ہو گیا بچوں کو سمجھائیں گے کیسے؟ جسطرح سمجھانے اور درس کے طریقے ٹیلی وژن پر دکھائے گے ہیںوہ بچوں کی علمیت سے زیادہ خوف کا سبب بنیں گے اس طریقہ سے تو بزدلی بڑھے گی۔ علاوہ ازیں نصاب میں کیا کچھ شامل نہیں یعنی اخلاقیات کے لمبے لمبے باب، اگر یہ سب کچھ نہ بھی ہو ایک مسلم معاشرہ ہونے کے سبب کتاب اللہ کی تعلیمات نا کافی ہیں کیا،جس کا موضوع ہی انسان اور انسانیت ہے۔پھر بھی ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ انسان کا بنایا ہوا نظام انسان کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے، انسان اور انسانیت کا نہیں، اس میں انسان محض بکائو مال بن جاتا ہے۔جیسے کمپیو ٹر کے وائرس پھر اینٹی وائرس، سافٹ ویئر پھر نیا سافٹ ویئر، بین ایسے ہی بیماری آتی ہے پھر دوائی بنائی جاتی، پھر بیچی جاتی، پھر اس دوائی سے نئی بیماری آتی ہے یوں سلسلہ جاری وساری رہتاہے۔ یعنی بیماری کا تدارک نہیں، سد باب نہیں بلکہ اس کا راستہ بنا دیا جاتا ہے۔
یہاں کیوں کا جواب اور علاج نہیں ہے بلکہ کیسے کاجواب اور علاج مو جود ہوتا ہے مطلب یہ کہ اگر کوئی مسئلہ ہو جاتا ہے تو اس مسئلہ کے حل کے طور پر ایک اور مسئلہ کھڑا کیا جاتا ہے مسئلہ اول وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ معاشرے میں گندگی پیدا ہو رہی ہے تو اس کے لئے محکمہ صفائی بنا دیا گیا یعنی گندگی پیدا ہوتی رہے۔چلئے مان لیتے ہیں کہ تعلیمی نصاب میں یہ معاملات داخل کر کے بہتری لائی جاسکتی ہے ۔ نصف سے زائد وہ بچے جو سکول جاتے ہی نہیں یا جو جاہی نہیں سکتے جو مختلف قسم کی مزدوری کرتے ہیں ان کا کیا ہو گا غیر سرکاری اداروں کی تحقیق تو یہ بتاتی ہے کہ وہ بچے سب سے زیادہ جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں جو بھٹوں پر ، ورکشاپوں اور مختلف جگہوں پر کام کاج کرتے اور سیکھتے ہیں۔ ان کو کیسے آگاہی دی جائے گی؟ابھی تک تو ہر طبقہ فکر اپنی اپنی دکانداری چمکانے کی فکر میں لگا ہے۔اس کا تدارک اور حل کس کے پاس ہے؟ کون ذمہ دار ہے؟حل تو مشکل نہیں مگر دکانداری خطرے میں پڑتی ہے۔ شائد ہم گٹر سے عرقِ گلاب کی تلاش میں ہیں۔

تازہ ترین