• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

3 جنوری کو’’وہ جن کو بھلا دیا گیا‘‘ کے عنوان سے راقم کا ایک کالم جنگ لندن میں شائع ہوا تھا جس میں معمر افراد کا المیہ اور ان کو درپیش بعض مسائل کو اٹھایا گیا تھا اس پر متعدد تبصرے موصول ہوئے اور تادم تحریر یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک تبصرہ لارڈ قربان حسین کا ملا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ خاص کر برطانیہ جیسے مصروف اور انفرادیت پرست ماحول میں بڑھاپے میں بےتوجہی عذاب سے کم نہیں۔ مجھے اس ملک میں رہتے ہوئے کم و بیش 47 برس گزر گے ہیں۔ایک زمانے تک ہم لوگ اس مسلے کو صرف انگریزوں کا مسئلہ ہی سمجھتے رہے بلکہ ایسے واقعات کا مشاہدہ کرنے پر انگلش کلچر پر کھل کر تنقید کیا کرتے تھے - یہ وہ زمانہ تھا جب برطانیہ آ کر آباد ہونے والے ہمارے لوگ ابھی بڑھاپے کی دہلیز کو نہیں پہنچے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب کہ ہمارے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی پیرانہ سالی سے گزرنے لگی تو محسوس ہوا کہ یہ مسئلہ صرف انگلش کمیونٹی یا کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک کامن ایشو ہے اور یہ کہ دن بدن اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اگرچہ برٹش ویلفیر اینڈ کیئر سسٹم کے تحت عمر رسیدہ شہریوں کی دیکھ بھال کا نظام موجود ہے لیکن دیکھنا یہ بھی کہ یہ سسٹم ہماری مخصوص کلچرل اور مذہبی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے بزرگوں کے لیے کس حد تک کارآمد ہے اور ان کی ضروریات کو کس طرح بہتر طریقے سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ جے کے ایل ایف کے ظفر خان نے تجویز دی ہے کہ مسلم کمیونٹیز یوکے میں معمر لوگوں کے لیے اپنے اپنے علاقوں میں ڈے کئیر مراکز کی فراہمی پر توجہ دیں۔ اس حوالے مساجد کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ ہر مسجد ایک سب کمیٹی تشکیل دے اور اس حوالے سے پالیسی اپنائی جائے۔ مساجد کے ذریعے یوکے میں ہماری کمیونٹی اس مسئلے پر پیش رفت کر سکتی ہے اور قومی محکمہ صحت اور لوکل اتھارٹیز کو بھی مسلمان کمیونٹیز اور پارٹنرز یقینا" ان حوالوں سے انگیج کر سکتے ہیں۔ ایک اور دانشور شخصیت نے بتایا کہ کالم میں جو صورتحال بیان کی گئی ہے اس سے کئی بزرگ دوچار ہیں۔ متعدد بزرگ شخصیات کے واقعات بھی گوش گزار کیے جن کی نہ صرف اپنے خاندان بلکہ کمیونٹی کے لیے وسیع خدمات ہیں۔ لیکن بڑھاپے میں ایسے بزرگوں کا کوئی پرسان حال نہیں کئی ایسے بھی ہیں جن کی اولادیں اعلیٰ ملازمتوں میں ہیں یا وہ انہی بزرگوں کے کاروبار چلا رہے ہیں خود تو بچے عیش وعشرت کی زندگیاں بسر کر رہے ہیں ۔ دنیا کی رنگینیوں میں مصروف ہیں مگر والدین کو گھروں میں تنہا زندگی بسر کرنا پڑتی ہںے۔ان کی اولاد کے اتنے بڑے عہدوں اور بزنسیز کا انہیں کیا فائدہ؟پھر کئی ایسے ہیں جو اپنے دوستوں کی محفلیں تو روز سجاتے ہیں مگر ان کے گھروں میں والدین ڈیمنشیا سے دوچار، ان کے لیے وقت نہیں۔ کئی بزرگ ایسے ہیں جو ابھی چل پھر سکتے ہیں انہوں نے اپنی اولادوں کی بے اعتنائی کا یہ حل ڈھونڈ رکھا ہے کہ کونسلوں نے ان کو جو مفت بس پاس دے رکھے ہیں کہ پنشنرز ہیں۔ ان کو استعمال میں لا کر دن کا زیادہ وقت ٹاونز یا سیٹیز کے شاپنگ مالز میں چلے جاتے ہیں یا لائبریری وغیرہ میں اور اپنے جیسے دیگر احباب سے گپ شپ لگا کر دن کو اس طرح بسر کرتے ہیں اور جب شام کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو پھر بس پکڑ کر واپس گھر کی راہ لیتے ہیں ۔مقصد وقت گزاری ہے۔ ایک قاری نے لکھا ہے کہ اسلام میں والدین کو جو درجہ دیا گیا ہے اگر ہم اپنے مذہب پر صحیح طرح عمل پیرا ہوں تو والدین کو کبھی بھی اس طرح کی بے اعتنائی کی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ایک جرنل میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں عمومی طور پر اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے معمرافراد اور ان کی دماغی صحت بلخصوص خاندانوں اور انفرادی طور پر ڈپریشن اور ڈیمینشیا سے نبٹنے کیلئے درکار سٹریٹجیز سے متعلق بہت کم ریسرچ کی گئی ہے۔ اب ایک ترقی یافتہ ملک کی یہ صورتحال ہے تو پھر ترقی پذیر ممالک میں بزرگ لوگوں کو درپیش مسائل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہیے آخر میں میں یہ کہنا چاہیں گے کہ اس تناظر میں جہاں یہ ضروری ہے کہ معمر اور بزرگ افراد کی بہتر نگہداشت کیلئے کمیونٹی میں آگاہی پیدا کی جائے اور حکومتوں، کونسلوں، لوکل اتھارٹیز اور مذہبی اداروں کو اس ضمن میں موثر اقدامات اٹھانے پرزور دیا جائے وہاں ایسے بچوں اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیے کہ جو والدین اور دیگر معمر افراد کی خدمت اور ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں کماحقہ پوری کر رہے ہیں یہی لوگ ہمارے حقیقی رول ماڈل ہیں۔

تازہ ترین