• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کو درپیش سنگین چیلنجوں کے تناظر میں کئی سفارتی محاذوں پر پاکستان کو حاصل ہونے والی کامیابیاں خوش آئند سہی، ایسی بہرحال نہیں ہیں کہ مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں۔ ان کامیابیوں کو مستحکم تر کرنے اور سفارت کاری کو زیادہ متحرک و فعال بنانے کی یقینی طور پر ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے منگل کی رات جاری کئے گئے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ منی لانڈرنگ کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کو دہشت گردوں کا معاون ملک قرار دینے کی امریکی قرارداد پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا اور معاملہ تین ماہ کے لئے موخر ہوگیا۔ اس مدت کے دوران جس طرح قرارداد کے محرک ممالک اپنے موقف کے حق میں دوسرے ممالک سے رابطہ کرسکیں گے، بالکل اسی طرح اسلام آباد کے پاس بھی حکومتوں اور رائے عامہ سے تعلق رکھنے والے حلقوں سے رابطے کے مواقع موجود ہیں جن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو ان حقائق سے بار بار آگاہ کیا جانا چاہئے جن سے وہ پہلے ہی آگاہ ہے مگر پروپیگنڈے کے اس دور میں عالمی برادری تک سچائی اس انداز سے اور اس تواتر سے نہیں پہنچائی گئی جس تواتر سے جھوٹ پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی قرارداد پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے پیرس میں منعقدہ اجلاس میں اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد یہ تجویز دی گئی کہ پاکستان کو تین ماہ کی مہلت دی جائے اور ایشیا پیسفک گروپ، جو ٹاسک فورس کا حصہ ہے، جون میں اس پر غور کرے۔ پاکستان مذکورہ ادارے کو ان تمام کاررائیوں سے آگاہ کرچکا ہے جو اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی گئی فہرست میں مندرج تنظیموں کے حوالے سے کی گئی ہیں۔ 11؍فروری کو سامنے آنے والے صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ءمیں ترمیم کرکے جماعت الدعوہ اور اس سے ملحقہ فلاحی تنظیموں کا کنٹرول سنبھالنے اور اثاثے منجمد کرنے کی کارروائی شروع ہوگئی ہے جس کے بعد امریکہ یا کسی اور ملک کو مذکورہ تنظیموں کیخلاف کارروائی میں نرمی برتنے کا الزام لگانے کا موقع نہیں ملے گا۔ سفارتی سطح پر ایک کامیابی یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی جی ایس ٹی پلس سہولت جاری رکھے جانے اور اسلام آباد کو اپنی برآمدات مزید بڑھانے کا موقع فراہم کرنے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ اس سہولت اور اقوام متحدہ سے کئے گئے 27کنونشنز کے ریویو کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد پاکستان کو اپنی مصنوعات کا معیار بڑھانے پر بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ یورپی یونین نے پاکستانی مصنوعات پر ڈیوٹی ختم کرنے کے عوض اقوام متحدہ کے جن 27کنونشنز پر سختی سے عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے، ان کے حوالے سے بھی رپورٹیں جاری کی جانی چاہئیں۔ امور خارجہ میں ایک پیش رفت پاک روس تعلقات کی نئی جہتوں کی نشاندہی کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے دورہ ماسکو کے موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف سے مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون کیلئے ایک کمیشن کے قیام کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں افغانستان میں داعش کی موجودگی سمیت دہشت گردی کی ہر شکل کے خلاف یکساں موقف کا اظہار کیا جبکہ روسی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف اسلام آباد کے اہم کردار کا اعتراف کیا، افغانستان میں دہشت گردوں کے علاقوں میں بغیر نشان کے ہیلی کاپٹروں کے آنے جانے کا ذکر کیا اور وہاں امریکی افواج کی موجودگی کے باوجود داعش کے قدم جمانے سے پیدا ہونے والے سوالات کی طرف اشارہ کیا۔ سرگئی لاروف کے بیان سے واضح ہے کہ ماسکو اسلام آباد کو توانائی کے بحران سے نمٹنے میں مدد دینے کے لئے تیار ہے۔ خطے کے حالات کے تناظر میں مذکورہ سفارتی کامیابیوں کی اہمیت معمولی نہیں۔ انہیں مزید موثر و مستحکم بنانے کیلئے پروفیشنل سفارت کاروں کی مہارت و تجربہ کو زیادہ بہتر طور پر بروئے کار لانے سمیت تمام اقدامات ضروری ہیں۔

تازہ ترین