• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

kishwar.nahid@janggroup.com.pk

چاروں طرف نظر ڈالو،پتہ چلتا ہے کہ نوکری سے آج فلاں گیا آج فلاں گیا۔ اس وقت اکیڈمی کی کرسی خالی ہے، لوک ورثہ کی کرسی خالی اور اب ویمن کمیشن کی چیئربھی خالی ہے۔ اُدھر باقی محکموں میں بھی اکھاڑ پچھاڑ کی کوئی حد نہیں۔ دوسری طرف سرکار چونکہ سینیٹ کے الیکشن لڑنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اس لئے بھاڑ میں جاتا ہے کوئی تو جائے، پیمرا ہو کہ ٹی وی کا چیئرمین، جب اپنا کوئی چہیتا یا لاڈلا سامنے میسر نہیں تو ادارے اجڑتے ہیں تو اجڑنے دو۔ اُدھر ویمن کمیشن نے بہت سے ایم او یو سائن کئے تھے۔ وہ بھی فنڈنگ ایجنسیوں کے ساتھ اب ان کا کیا ہوگا۔ فیض آڈیٹوریم، اکیڈمی کا کام مکمل ہونے والا تھا، وہ بیچ ہی میں رہ گیا کہ بوگھیو صاحب کو گھر بھیج دیا گیا۔ اُدھر فوزیہ سعید نے ہر روز ایک نیا پروگرام دیکر لوک ورثے کو زندہ کیا۔ جہاں کوئی جاناگوارا نہیں کرتا تھا، وہ نوجوانوں سے لے کر، ریٹائرڈ لوگوں کو دلچسپی کا سامان فراہم کرنے لگی مگر ان سارے اداروں سے حکومت کی کارکردگی پر تھوڑا ہی اثر پڑتا ہے۔ راج کرگیا خالصہ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
ہمیں تو عاصمہ کے بعد کے منظر میں اندھیرانظر آنے لگا ہے کہ اس وقت ، وہ سب بولنے لگے ہیں، جن کو عاصمہ کی زندگی میں، منہ توڑ جواب ملتے تھے۔عورتیں اور مرد، مکہ مدینہ میں بھی تونماز ِ جنازہ پڑھتے ہیں۔ اب تو میڈیا پر بھی کسی نہ کسی صاحب ِ حیثیت کا حکم چل رہا ہے۔ ایک چھوٹی سی خوشی کہ لوگ ویلنٹائن ڈے پر ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرلیں۔ یہ بھی متنازع بنادیا گیا۔ ہمارے ملک میں پابندیوں پر ہر وقت اصرار ہے، لوگ خوش ہولیں، ایسا موقع دینے سے گریزاں رہا جاتا ہے۔ اس سال ، نئے سال کی خوشی میں سرکار نے عوام کو جشن منانے کی کُھلی آزادی دی۔ کیا ہوا؟ لوگ خوش ہوئے، کوئی بم نہیں پھٹا، جبکہ اسلام آباد میں اضافی نفری منگاکر، خاص کر نوجوان بچوں کو سائلنسر نکال کر موٹر سائیکل چلانے نہیں دیا گیا ۔ ہمارے تو اکثر فتوےبرادر عرب ملک سے آتے ہیں،اب کیا کروگے کہ وہاں کے ایک عالم نے بھی، ویلنٹائن ڈے کو منانا اچھی بات کہی ہے۔
کوئی بھی ضعیف الاعتقادی کے بارے میں کچھ نہیں بولتا۔ دادو میں گجی شاہ صاحب کرامت تھے، ان کا عرس ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ کسی قسم کی معذوری ہو یا پھر کسی خاتون پر جن آگیا ہو، وہ لوگ گجی شاہ کے مزار پر دھمال ڈال کر ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ چلو یہ تو لوگوں کے عقیدے کی بات ہے، خیر سے اب تو ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی خدا تک پہنچے ہوئے کی قبر اور اس پر چڑھاوا چڑھانے والے، خاص کر خواتین بہت مل جاتی ہیں۔ دادو میں گجی شاہ کے مزار کے علاوہ ، ان کی بلی کا بھی مزار ہے کہ وہ ہر وقت انکے ساتھ رہتی تھی، جب ان کا وصال ہوا تو بلی نے بھی دم دیدیا بس اسکی وفاداری کے باعث اسکی قبر بھی بنائی گئی۔پھر وہ بھی لائق ِ تکریم ٹھہری۔
جب سے لوگوں نے نقیب مرحوم کا کلوز اپ ٹی وی پر اور اسکی داڑھی خوبصورتی سے ترشی ہوئی دیکھی ہے خیبرپختونخوا کے کچھ خانقاہ نشینوں نے فتویٰ دیا ہے کہ ایسے داڑھی تراشنا حرام ہے۔ بے چارے سارے حجام، پریشان ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ کل کو سر پر بال لگوانے کو بھی کہیں حرام نہ ٹھہرادیں۔ آجکل ساجد حسن کی تصویر بڑی وائرل ہے کہ اس معصوم نے بال لگوائے اور اسکی سرکی جلد نے قبول نہیں کیا۔ یہ بات بالکل سچ ہے میں مثالیں دیکر واضح کرتی ہوں۔ آج سے بارہ پندرہ سال پہلے، احمد فراز نے بھی بال لگوانے کی کوشش کی تھی۔ اس کی بھی جلد نے بغاوت کی۔ کافی عرصے تک فراز کے سر پر دو جگہ پھوڑے سے بنے رہے۔ پہلے تو بتایا نہیں، پھر کہا کہ میں نے بال لگوانے کی کوشش کی تھی۔یہ ساری باتیں اس قدر دماغ میں کھول رہی تھیں کہ کراچی کی نویں عالمی oup کانفرنس اور یو بی ایل کے ادبی انعامات کا اعلان، ذہن سے مائوف ہوگیا مگر منی شنکر آئر، جو انڈیا کے سیاست دان اور دونوں ملکوں کو حماقتوں سے باز رہنے کے لئے کبھی پاکستان کے شہر شہر میں تقریر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میری پیدائش اورمیری بیوی کی پیدائش پاکستان کی ہے۔ یہ آخر دونوں ملک نفرتوں کو کیوں پھیلاتے رہتے ہیں۔ میں مذہبی دہشت گردی جو عالمی سطح پر ہورہی ہے، اس پر نظم آپ کو سناتی ہوں۔
مذہب کی گلوبلائزیشن
میں ٹی وی براہِ راست نہیں
آئینے میں دیکھتی ہوں
میرے آئینے میں بال آیا ہوا ہے
اسی لئے کہیں کسی کی آنکھ
کٹے پھٹے ہونٹ اور کبھی کچھ بھی
نظر نہیں آتا کہ آئینہ دھندلا
اور پرانا ہوگیا ہے
پھر بھی راکنگ چیئر پر بیٹھ کر
بند آنکھوں کے ذریعے سنائی
دینے والی آوازوں کو شناخت
کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
صاف جھوٹ بولنے والی آوازوں کو
میرے کان فوراً پہچان لیتے ہیں
یہ شیطان ہیں یا سیاست دان
امریکہ کے کہ پاکستان کے ہیں
آوازوں کی غراہٹ میں
تمیز نہیں کرسکتی ہوں
البتہ بالکل ایسی ہی آوازیں
ہندوستان میں بھی تو سنائی دیتی ہیں
وہاں تو گیروے رنگ میں لپٹے شیطان
دیوانگی کے عالم میں گئو ماتا، گئو ماتا
چنگھاڑتے، لوگوں کی جیبیں ٹٹول رہے ہیں
کہیں کوئی گئو ماتا کی بوٹی تو چھپی ہوئی نہیں ہے
سارے ملکوں میں مذہب بچانے کا ڈھول خوب پٹ رہا ہے۔

تازہ ترین