• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمرانی کے متعلقہ علم سے ہمارے حکمرانوں کی مکمل عدم واقفیت یا اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھی بدنیتی سے اسے گورننس سے جوڑنے میں دانستہ گریز یا پھر گورننس اور متعلقہ علم کی گڈ گورننس کے لئے اہمیت کو سمجھنے کے شعور سے ہی محرومی، پاکستان میں بیڈ گورننس اور سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ رہی۔ 

اتنی ہی بڑی دوسری وجہ ملکی آئین، پارٹی منشور اور حلف کے برعکس فلاح عامہ کی حقیقی اور عملی راہ اختیار کرنے کے بجائے اسے سیاسی ابلاغ کے شور میں لپیٹ کر مکمل بدنیتی سے حکمرانوں کا ذاتی، خاندانی اور برسر اقتدار ٹولے کی سراسر غیر قانونی اور غیر آئینی اغراض کے لئے دھما چوکڑی مچا کر قومی خزانے کی دھڑلے سے لوٹ مار کا بازار گرم کرنا بنی۔ 

ہمارے آج کے بدترین اقتصادی بحران اور تشویشناک سیاسی و حکومتی بحران کی تیسری بڑی وجہ خاندانی غلبے کی حامل سیاسی جماعتیں اور اُن کی خود غرض قیادتیں، بیمار انتخابی نظام اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی ادھوری کھوٹی حکومتوں، غالب بدنیتی اور مجرمانہ کنبہ پروری سے عوامی خدمات کے اداروں میں نااہلوں کی غیر قانونی تعیناتی ہے۔ 

ان تین بڑی وجوہات کے ساتھ مسلسل اقتصادی بحران اور سیاسی عدم استحکام کی چوتھی بڑی وجہ جلد جلد منتخب حکومتوں کا خاتمہ اور قدرے بہتر گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ اختتام اقتدار سے پہلے بڑے بڑے ڈیزاسٹر کرنے والی طویل آمرانہ فوجی یا نیم جمہوری حکومتوں کے اقتدار میں آنے کا سلسلہ جاری رہنا ہے۔

مسلسل قومی بحران در بحران بننے والی ان چار بڑی وجوہات کا پس منظر لئے ہم کچھ کامیابیوں اور کچھ مکمل ناکامیوں کو گلے لگائے آج پھر ملکی خود مختاری اور سلامتی کے لئے چیلنج بن جانے والے اقتصادی و سیاسی بحران سے دوچار ہیں۔ 

کامیابی البتہ اتنی ضرور ہوئی ہے کہ تبدیلی برپا کرنے پر کمربستہ اور عوام کی حالت اور ملک کا رتبہ بدلنے کے جذبے سے سرشار عمران خان اسٹیٹس کو سے لڑتے اور اسی کا سہارا لیتے بالآخر وزیراعظم تو بن گئے۔ 

ان کی دیانت داری، سحر انگیز شخصیت اور طویل جدوجہد سے متاثر پیپل ایٹ لارج نے بالآخر اپنے ووٹ کی طاقت سے ملک کو نئی قیادت تو دے دی۔ خان کے انسدادِ کرپشن اور انصاف و احتساب کے بیانیے کی برسوں پر محیط بلند درجے کی تکرار نے آخر کار عوام دشمن اور ملک کے لئے مہلک اسٹیٹس کو کو چٹخ دیا لیکن خانِ اعظم کی جدوجہد کے ساتھ جڑے تین ایسے بڑے محرکات، بڑے بڑے تجزیوں میں نظر انداز ہو جاتے ہیں جن کے بغیر اسٹیٹس کو کی چٹان میں دراڑیں ڈالنا عمران خان کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔

یہ تین محرکات کیا ہیں؟ نظامِ بد کے مقابل تبدیلی کی جدوجہد میں قدرتی معاونت کی اچانک یا بتدریج شمولیت جو تاریخ ساز پاناما اسکینڈل کی صورت ظہور پذیر ہوئی، نوجوانوں اور خواتین کی بڑی تعداد میں تبدیلی برپا کرنے کے لئے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا اور تیسرا بڑا اور بنیادی اہمیت کا حامل محرک میڈیا کی مطلوب آزادی کی دستیابی ہے۔ 

اس کے سرگرم استعمال کے باعث بلاشبہ پروفیشنل گرومنگ ضرور متاثر ہوئی لیکن یہ اس کے باوجود نتیجہ خیز ثابت ہوئی، وگرنہ اسٹیٹس کو کو سنبھالا اور بڑھاوا دینے والی ’’انڈر ورلڈ‘‘ عوام اور تبدیلی کی ظہور پذیر سیاسی قوتوں کے مقابل کہیں زیادہ طاقتور تھی۔ 

اس کی ایک بڑی توانا مثال اسٹیٹس کو کی باقی ماندہ سیاست سے مکمل مغلوب مخصوص روایتی سیاست میں ہر دم اپنے وجود کا مسلسل احساس دلانے والی مولانا فضل الرحمٰن کی مذہبی سیاسی قیادت ہے۔ جس کا انحصار سینکڑوں مدارس کے لاکھوں طلبہ پر ہے۔

زیر نظر ’’آئین نو‘‘ کے ابتداء میں بیان کردہ تشویشناک بحرانِ مسلسل کی چار بڑی وجوہات کی نشاندہی کے تناظر میں روایتی طرز کے ہضم ہو جانے والے الیکشن اور تشکیل پانے والی نیم جمہوری بیمار حکومتوں کے قیام کے تسلسل کے باوجود اتنی کامیابی ضرور ہوئی کہ ایک یقینی دیانت دار اور عوام کی سچی خیر خواہ، ملکی رتبے پر کڑھتی اور اس میں اضافے کی صلاحیت کی حامل حکومت اسٹیٹس کو کے جملہ جھنجھٹوں میں لپٹی (اور بڑی بڑی کمزوریوں کے ہمراہ) برسر اقتدار آگئی۔ جس سے شدت سے مطلوب قومی ضرورتوں کے پورے ہونے کا عمل چند بڑی لیکن ابھی ادھوری کامیابیوں کے ساتھ شروع تو ہوا، مثلاً بیرونِ ملک پاکستان، اس کے عوام اور قیادت کے مایوس کن امیج میں بہتری کا عمل اطمینان بخش درجے پر جاری ہے۔ 

ہماری جمہوریت سے جڑی ریاست پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور جیسی تیسی حکومت کا مکمل ایک پیج پر ہونا تاریخی تناظر میں بڑی بات ہے۔ 

مسئلہ کشمیر زور شور سے عالمی مسئلہ بن رہا ہے۔ اس سے خارجی اور سلامتی امور کو سنبھالنے میں حوصلہ افزا مدد ملی ہے اور مل رہی ہے۔ 

ڈیزاسٹر یہ ہو رہا ہے کہ میڈیا پر بتدریج حکومتی قدغنوں میں تیزی آرہی ہے جو باعثِ تشویش ہے، اس کا موجب بننے والوں پر اب یہ واضح کرنا لازم ہے کہ ففتھ جنریشن وار فیئر لڑتے پاکستان کے لئے گزشتہ ڈیڑھ عشروں میں بڑھتا پھیلتا قدرے بگڑا مین اسٹریم میڈیا اور اس کی ابلاغی معاونت اتنی ہی ضروری ہے جتنی نتیجہ خیز یہ قیام پاکستان اور دو قومی نظریہ کی عوام میں قبولیت کے لئے ثابت ہوئی تھی۔ 

غور فرمایا جائے اور ’’بے قابو‘‘ میڈیا کو آئین و قانون کے فریم میں مینج کیا جائے۔ بلاشبہ حکومت کا ’’گورننس اور متعلقہ علوم‘‘ کے رشتے کے شعور کا درجہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کے براہِ راست متاثرین عوام بنے ہوئے ہیں۔ 

اسٹیٹس کو کی طاقتور علامتیں، روایتی رویوں کی حامل بیورو کریسی اور ٹیکس بیزار تاجر برادری کو اپنی مزاحمتی طاقت ثابت کرنے کے بعد اب سماجی پسماندگی سے کشید کی گئی اپنی طاقت ’’مدارس کے طلبا‘‘ کے ساتھ حضرت مولانا نے اسلام آباد کے ایوانوں سے محرومی کے ردعمل میں شہر اقتدار میں میدان لگانے کی ٹھانی ہے۔ 

انہیں مقبوضہ کشمیر کے حالات اور اس سے بنتی تاریخ سے کوئی غرض نہیں۔ دیکھتے ہیں مولانا کی مہم جوئی کیا رنگ دکھاتی ہے۔

تازہ ترین