• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا آپ جانتے ہیں لاہور شہر میں آخری بار جگنو کب جگمگائے تھے یا پھر ہمارے شہرکے درختوں میں بسنے والے ہرے بھرے سرخ چونچ والے طوطے کہاں گم ہو گئے؟ اگر آپ سن اسّی کے بعدپیدا ہونے والے لاہوریوں میں سے کسی سے یہ سوال کریں تو شاید وہ حیرانی سے آپ کی طرف دیکھیں۔ مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لاہور کے لارنس گارڈن میں گرمیوں کی راتوں میں ستاروں سے بھی زیاد ہ چمکدار جگنو چم چم کرتے تھے، کبھی دل زیادہ شرارت پر مائل ہوتے تو کچھ جگنوں کو شیشے کی بوتل میں بند کر کے انہیں ساتھ لئے پھرتے۔ پھر لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی نے شاید ان جگنوؤں سے ان کا مسکن چھین لیا، گرمیوں کی راتوں میں جگمگ کرتے ہوئے جگنو مصنوعی روشنیوں کی نذر ہو گئے۔ اب تو شاید ہمارے دیہاتی علاقوں میں بھی جگنو نہیں رہے ۔یہ شہر وہ شہر تھا جہاں دن کا آغاز چڑیوں کی چہکار، کوئل فاختاؤں کی کوک اور طوطوں کی ٹولیوں کی آوازوں سے ہوتا تھا ۔ گرد و نواح کے کھیتوں میں سبز گردن والے کبوتر بھی بہت تھے اور رائے ونڈ، شاہدرہ، ملتان روڈ، قصور روڈ کے جوہڑوں میں مرغابیاں بھی بسیرا کرتی تھیں۔
یہ کوئی اکبر اعظم کے زمانے کی داستان بھی نہیں ہے، ابھی کچھ دو دہائی قبل تک یہ طوطے شہر کے قدیم درختوں کی شاخوں پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ پھر جب وہ قدیم درخت جدید شہر کی ضروریات کی بھینٹ چڑھ گئے تو ان طوطوں نے بھی لاہور سے اپنا منہ موڑ لیا۔ اب آپ کو طوطے دیکھنے کے لئے چڑیا گھر کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔
یہ صرف طوطوں اور جگنوؤں کی ہی بات نہیں ہے، ہمارے شہر میں اب پھولوں کے گرد منڈلاتی رنگ برنگی تتلیاں بھی آلودگی کی وجہ سے ختم ہوتی جا رہی ہیں، صرف ایک دہائی پہلے تک لاہور میں کئی اقسام کی تتلیاں بکثرت پائی جاتی تھیں۔ اب نہ صرف ان کی تعداد لاکھوں سے گھٹ کر ہزاروں رہ گئی ہے بلکہ ان کی بہت سی ایسی اقسام ہیں جو اب لاہور میں موجود ہی نہیں ۔ شاید بہت سے لوگوں کے لئے یہ ایک معمولی بات ہو لیکن میر ے نزدیک یہ ا س لئے بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے کہ یہ تمام تبدیلیاں ہمارے شہر کے ایکو سسٹم کی تباہی کے باعث ظہور پذیر ہورہی ہیں۔ میں شہروں میں ترقیاتی منصوبوں کے خلاف نہیں ہوں، میں اس بات سے بھی واقف ہوں کہ دنیا بھر میں شہروں میں انفراسٹرکچر بنانے کیلئے توڑ پھوڑ اور کنکریٹ کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن کیا دنیا میں اس انفراسٹرکچر کی آڑ میں شہروں کے ایکو سسٹمز کو برباد کیا جا رہا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ دنیا بھر میں جہاں شہریوں کی سہولیات کے لئے ترقیاتی کام کئے جاتے ہیں وہیں ان ترقیاتی کاموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اس پر عملدرآمد بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن لاہور میں پچھلے چند سالوں میں ہونے والے کام نے ماحولیاتی آلودگی میں صرف بے تحاشا اضافہ کیا ہے۔ شہر بھر میں سالوں پرانے درخت کاٹ کر ان کی جگہ کنکریٹ کے جنگل بنا دیئے گئے ہیں۔مگر ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے اور شہر کو سر سبز و شاداب بنانے کے لئے شارٹ ٹرم، مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم بنیادوں پر کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
یہ طوطے اور جگنو صرف خوبصورتی کی ہی علامت نہیں تھے، یہ اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کہ ہمارے ایکو سسٹم میں ایک بیلنس موجود ہے، کائنات کے نظام میں ہر چیز اور جاندار کی ایک خاص افادیت اور ضرورت ہوتی ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مشکل کھانے کو پکانے کے لئے کئی مصالحوں کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں سے اگر کوئی کم ہو جائے تو کھانے کے ذائقے پر اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح جگنو، طوطے اور مینا صرف خوبصورتی ہی کے لئے ضروری نہیں ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک کی کوئی نہ کوئی خاص افادیت ہے۔ ان کی غیر موجودگی کے باعث ہم بہت سے ایسے فوائد سے محروم ہو رہے ہیں۔ آپ شہد کی مکھی کی ہی مثال لیجئے،ہمارے شہر میں اب شہد کی مکھیاں تقریباًنا پید ہو گئی ہیں، شہد کی مکھیاں عموماًپھولوں اور پودوں کی پولی نیشن میں بھرپور کردار ادا کرتی ہیں،ان کے بغیر یہ کام بہت مشکل ہو جاتا ہے، اگر ہمارے شہرمیں مکھیاں نہ رہیں تو ایک ایسا وقت بھی آ سکتا ہے جب پولی نیشن درست انداز میں نہ ہوپانے کے باعث پھول اور پودے ہر سال تعداد میں کم ہوتے جائیں۔
لاہور میں پرانے درختوں کو کاٹ کر جن نمائشی جھاڑیوں اور پودوں کا انتخاب کیا جا رہا ہے وہ ظاہری طور پر تو شاید ایک ماڈرن شہر کی ضروریات کو پورا کرتی ہوں لیکن ماحولیات کی سطح پر ان کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ یہ نہ توخاطر خواہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور نہ ہی پرندوں کے لئے آماجگاہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اگر ان چھوٹے قد کی جھاڑیوں کو پرانے درختوں کی جگہ لگایا جائے تو یہ مثبت کی بجائے منفی رجحان ہے۔ ہمارے ہاں پیپل، کیکر، شیشم، املتاس ، شہتوت جیسے سدا بہار درختو ں کی کمی نہیں ہے لیکن نہ جانے کیوں ہم صحرائی پام اور نمائشی جھاڑیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں، یہ درخت نہ تو خاطر خواہ سایہ فراہم کرتا ہے اور نہ ہی چرند پرند کے رہنے کے لئے مسکن فراہم کرتا ہے۔ مجھے شہر کی خوبصورتی کے لئے پھول یا جھاڑیاں لگانے پربھی کوئی اعتراض نہیں مگر اگر ہمیں ماحول کو محفوظ بنانا ہے تو تناور، سایہ دار، گھنے درخت لگانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ جامن اور نیم کے درخت کاٹ کر پام اور جھاڑیاں لگا کر ہم نہ صر ف اپنے ساتھ بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی زیادتی کر رہے ہیں۔ ہم پہلے ہی لاہور کو کنکریٹ کا جنگل بنا چکے ہیں، ایسے میں اگر ہم شہر میں موجود پرانے درخت کاٹنے کے بعد نئے درخت نہیں لگاتے تو کیا ہم اگلی نسلوں کو چڑیاں اور کوے دیکھنے سے بھی محروم کر دینا چاہتے ہیں؟
تازہ ترین