• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرمایہ کاری کی ضرورت ترقی پذیردنیا کو بمقابلہ ترقی یافتہ دنیا کے زیادہ ہے ۔ آخر الذکراپنی آبادی کو روزگار فراہم کرچکی ہے۔ جبکہ ترقی پذیر دنیا میں آمدنی کے ذرائع کافقدان ہے۔ صرف سرمایہ کاری کے ذریعے ہی آمدنی کے ذرائع پیداکئے جاسکتے ہیں۔ کوئی اور طریقہ کار نہیں!
گزشتہ سالوں میں سرمایہ کاری کو کم قدراضافی شعبوں تک محدود رکھاگیا۔ کپڑے کی صنعت ، شکراور سیمنٹ ۔یہ شعبے اپنی گنجائش کی حد تک پہنچ گئے ۔ نتیجتاً یہ روایتی شعبے خاطر خواہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ غیر روایتی شعبے خاص طور پر بنیادی صنعتیں جس میں فولاد، انجینئری، کیمیائی، ادویات ، ریفائنری، کھاد اور گاڑیوں کے شعبے شامل ہیں اور جنہیں 1970 کے دہائی کے آغاز میں سرکاری تحویل میں لے لیا گیا تھااب انہیں بتدریج ترک کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے کیونکہ اب وہ لاگت یا خوبی کے بین الاقوامی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ غیر دانشمند انہ آزاد معیشت کا نعرہ (ترقیاتی انجینئری، معاہدوں کو مستثنی کرنے کے بعد) خاص طور پر پاکستان کو اس مقام پرلے آئی ہے۔ جہاں پاکستا ن کی اپنی تخلیق کردہ سوچ ناکارہ بن گئی ہے۔ پاکستانی فولاد کی صنعت کو مقابلے میں بیحد دشواری کاسامنا ہے ۔پر زے جوڑنے کے عمل کو مصنوعات کی تیاری پر فوقیت دینا، تحفظاتی محصولات کو کم کرنا۔ جسکی ایک واضح مثال کسٹم محصولات کو گھریلواستعمال کی مصنوعات اور ٹیلی وژن کے پرزہ جات (CKD Parts) پر کم کرنا شامل ہے جس نے مقامی صنعت کو مسابقتی دور میں پیچھے کردیا ہے۔ معاشرتی اور سیاسی حکمت عملی کو ترتیب دئیے بغیرآزاد تجارت کی طرف پیشقدمی بشمول انڈیا تجارت کے نتیجے میں کاروباری حلقے عدم تحفظ اور سرمایہ کاری کے مطابق گومگو کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اس صورت حال کے نتیجے میںدونوں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو دھچکالگا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان عوامل کا بغورجائزہ لیا جائے تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ ہو، ذرائع آمدنی پیدا کئے جائیںاور حکومتی آمدنی اور اخراجات کے فرق کو کم کیا جائے۔اس سے قطع نظر کہ لوگ کیا سمجھتے ہیں آزاد معیشت جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہے اس کا کوئی وجود نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ اسے علاقائیت یا تحفظات یا محدود قومیت کی بنیاد پر قائم نظام کہہ سکتے ہیں جو ترقی پذیر ممالک سے مطالبہ توکرتا ہے کہ وہ اپنی سرحدیں بیرونی معیشت کیلئے کھول دیں جبکہ ترقی یا فتہ دنیا نے اپنی معیشت کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے مارکیٹ تک رسائی حقیقتاً مشکل کردی ہے۔ اگرایسا نہیں ہے تو پھر ای یو نافٹا اور حال میں سارک کی تنظیموں کا وجود نہ ہوتا۔ ترقی یافتہ دنیا اپنی صنعتوں ، خدمات سے متعلق صنعتیں اور زراعت کو تحفظ فراہم کرتی ہے جسکا ایک طریقہ کارترقی پذیر ممالک سے درآمد پر ایک حد مقرر کر نا ہے۔اسکی ایک اور حالیہ مثال ریاستِ امریکہ کی ہے جس نے پاکستان سے فولاد کی درآمد پر اضافی درآمد ی محصول عائد کردیا جبکہ پاکستان کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ اپنی فولاد کی صنعت کو بتدریج ترک کردے کیونکہ یہ صنعت بین الاقوامی مسابقتی معیا ر پر پورا نہیں اترتی۔ امریکہ عموماً اس قسم کے اقدام اٹھاتا ہے جب کبھی اسکے اپنے مفادات زد میں آتے ہیں۔ گاڑیوں کی درآمد میں محصولات میں اضافے کا معاملہ جس میں جاپان سے پرتعیش اور بیش قیمت گاڑیوں کی درآمد شامل ہیں لوگوں کے علم میں ہے۔یو ایس کسٹم نے ایک موقع پر جاپان کے صنعتی ادارے پر خطیر رقم جرمانے کے طور پر عائد کر دی اس بنیاد پر کہ اس ادارے نے پرزے کینیڈا( جوکہ بشمول امریکہ اور میکسیکو نا فٹا کا ممبر ہے) سے درآمد کئے تھے جبکہ انہوں نے وہ پرزے امریکہ میں تیار کرنے کا یقین دلایا تھا۔بہرحال عالمی بینک اس شعبہ میں سرمایہ کاری کی تر غیب نہیںکرتا جو بین الاقوامی مسابقتی معیار پر پورا نہیں اترتے۔انٹر نیشنل مانیٹری فنڈروایتی طور پر کرنسی کی قدر میں کمی (devaluation) ، حکومتی اخراجات میں کمی اور شرح سود میں اضافہ کی حمایت کرتا ہے۔ یہ سارے اقدام مقامی لاگت میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں اور جسکی وجہ سے سرمایہ کاری سے لوگ محتاط ہوجاتے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ایک اندازے کے مطابق 0.01فیصدامیر ترین بین الاقوامی کمپنیوں کی نمائندہ ادارہ ہے یہ عام رائے ہے کہ یہ ادارہ ایسی آزاد تجارت کو فروغ دینے کی سعی کرتاہے جو ترقی یافتہ ممالک کے مفاد میں ہو نہ کہ ترقی پذیر ممالک کے مفاد میں۔
اس پس منظر میں پاکستانی سرمایہ کاروں کو بیرونی ممالک میں کاروبار قائم کرنے کی آزادانہ اجازت نے پاکستانی سرمائےکو بیرون ممالک بشمول امریکہ ۔ برطانیہ ۔ کینیڈا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک منتقلی میں حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ بجائے اسکے کہ سرمایہ کاری مقامی طور پر ہو جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ایک طرف سرمایہ کاری ۔ پیداوار اور برآمد متاثر ہوئی ہے اور دوسری طرف ملک میں آمدنی کے ذرائع محدود رہے ہیں۔ یہ سلسلہ بدستور قائم ہے اور مقامی صنعتوں کی ضروریات کی طرف توجہ مرکوزنہیںکی جارہی ہے۔
مجموعی طور پر ان پا لیسی اقدامات کے نتیجے میں تجارت اور خصوصاً کسی نظم یا ساخت کے اندر رہے بغیر (unorganized) تجارت کو جنم دیا ہے ۔ درآمد اور برآمد کا فرق اپنی جگہ قائم ہے اور برآمد کو فروغ دینے کے دعوے محض زبانی دعوے ہیں۔ سال بہ سال برآمدات میں اضافہ افراط زر میں اضافے سے کافی کم رہاہے۔
بغیر محصول کی ادائیگی درآمد یا برآمد کم قیمت پر بیجک بنانا (under invoicing) اور غیر مستند (غیر قانونی) راستوں سے اشیاء کی درآمد میں روز بروز اضافہ ہورہاہے۔ باڑہ منڈیاں یعنی بے ترتیب اور بے ضابطہ منڈیاں ترقی پارہی ہیں جبکہ حکومت کا دعویٰ اسکے برعکس ہے۔ ایوان تجارت وصنعت عموماً حکومت وقت کی ستائش (خوشامد کی حد تک) میںلگا رہتا ہے محدودذاتی مفاد میں ۔بجائے اسکے کہ وہ حکومت کو صحیح حالات بتائیں اور ملک کے مفاد میںحکومت کی صحیح طریقہ سے رہنمائی کریں جو صنعت کی ترقی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ایسی صنعت جو کہ ضابطہ اور قانون کے مطابق قائم کی گئی ہو اور جو سرمایہ کاری کو اپنی طرف راغب کرسکے ۔ آمدنی کے ذرائع پیدا کرسکے اور آمدنی میں اضافہ کا باعث بنے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔جس میں ایک ایوان تجارت ہو اور دوسرا ایوان صنعت جیسا کہ بیشتر ممالک میں ہوتا ہے۔ اور جو کہ ملکی مفاد میں بھی ہے۔اب ہم اس سوال پر آتے ہیں جسکا تعلق ہمارے پڑوسی ممالک بشمول ہندوستان سے آزادانہ تجارت کا ہے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین