• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعلیم ، جدید ٹیکنالوجی اور نئے ٹرینڈز

سلیم انور عباسی

آج کل کے ڈیجیٹل دور میں جدید تعلیم خود ہی استاد اور محقق ۔ خود ہی طالب علم کے باہمی امتزاج پر مبنی ہے جسے ہم پہلے سیلف میڈ کہتے تھے اور آج گھر بیٹھے مفت آن لائن تعلیم یا اسمارٹ ایجوکیشن کے نام سے پکارا جاتا ہے۔لیپ ٹاپ،ٹیبلیٹ اور اسمارٹ فون نے اب تعلیم کا حصول پہلے سے کہیں زیادہ سہل کردیا ہے۔اس پر مستزاد مصنوعی ذہانت کے انقلاب سے شہہ پانے والے روبوٹکس سائنس کے انقلاب نے اساتذہ کی چھٹی کی راہیں بھی ہم وار کردی ہیں۔ امریکا میں اس وقت4 ہزارایک سو20 ایجوکیشنل ایف ایمزہیں جب کہ ہمارے ہاں239ایف ایم ریڈیو چینلز میں سے ایک بھی چینل ایسا نہیں جو باقاعدہ تعلیم سے مختص ہو۔

حتیٰ کہ سندھ مدرسہ الاسلام اور ضیا الدین اسپتال کے ایف ایم چینل بھی برائے نام ہیں جہاں جب دیکھیں صوفیانہ موسیقی سے سماعتوں کو محظوظ کیا جاتا ہے یا کبھی ادارے کی اشتہاری تعریف و ستائش! بھولے سے نصابی تدریس کا اہتمام نظر نہیں آتا۔ان کے بارے میں ایک ہی شکایت ملتی ہے اشتہارات نہیں ملتے!

آج ہم اکیسویں صدی میں زندگی گذار رہے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں ٹیکنالوجی نے تیز رفتار ترقی کی ہے۔ خاص طور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت بڑا انقلاب آیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کبھی کبھی کوئی نادر واقعہ ہوتو اسے بریکنگ نیوز کہا جاتا تھا۔ آج ٹیلی ویژن کے نیوز چینلوں پر ہر تھوڑی دیر میں ہمیں دنیا کے کسی حصے سے بریکنگ نیوز کی اطلاع ملتی ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی نئی ایجاد اور نئے طور طریقے ہماری زندگی میں شامل ہو رہے ہیں۔ الیکٹرانک کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔

 جیب میں رکھے جانے والے ایک چھوٹے سے آئی فون میں ہمیں انفارمیشن کے حصول سے متعلق ہر سہولت دستیاب ہے۔ جیسے فون سے بات کرنا ویڈیو کالنگ، انٹرنیٹ براؤزنگ، فیس بک چیٹنگ، ای میل کی سہولت،ای بکس اور بہت کچھ۔ آج کے اس دور میں جہاں ٹیکنالوجی کے بڑھتے اثرات نے زندگی کو تیز رفتار بنا دیا ہے وہیں تعلیم کے شعبے میں بھی ٹیکنالوجی کا اثر محسوس کیا جا رہا ہے۔ 

جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے اساتذہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پیشہ تدریس کو اثر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکتے اور تعلیمی ادارے بھی اپنے انتظامی امور میں ٹیکنالوجی کو اختیار کرتے ہوئے اپنے انتظامیہ کو بہتر اور فعال بنا سکتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ ٹیکنالوجی کس طریقے سے ہماری موجودہ تعلیم کا حصہ بن رہی ہے۔

الیکٹرانک ذرائع

آج تعلیم کے حصول کے ذرائع میں اسکول کالج یونیورسٹی، اساتذہ اور کتابوں کے علاوہ الیکٹرانک ذرائع جیسے ای کلاس روم، اسمارٹ کلاس، اوور ہیڈ پروجیکٹر، کمپیوٹر سی ڈیز، ٹیابلیٹ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ وغیرہ شامل ہیں۔ جن کی مدد سے عصر حاضر کا استاد اپنے نئے زمانے کی تعلیم کو بہتر بنا سکتا ہے۔اگر اس نے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوئی سعی نہیں کی تو مشین نما روبو سر عنقریب اساتذہ کی جگہ لیں گے جن کا کامیاب تجربہ سنگاپور، جاپان کے اسکولوں میں ہو چکا ہے ۔اس لیے اب اساتذہ کو زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔اب وہ دن گئے کہ اساتذہ درکار ہوں۔ آن لائن تعلیم سے کئی بین الاقوامی اساتذہ کی خدمات ہمیں گھر بیٹھے حاصل ہوگئی ہیں۔

اسکول کی سطح پر بطورتدریسی وسائل جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

اساتذہ کے لئے لازمی ہے کہ وہ دوران ِتدریس تدریسی آلات جیسے بلیک بورڈ، چا ک پیس، کتاب، نقشہ جات،تصاویر اور دیگر ماڈلزکا استعمال کریں تاکہ اپنے سبق کو دلچسپ اور معلوماتی بنایا جا سکے۔ اسکول کی سطح پر جب کہ بچہ نو آموز ہوتا ہے اسے دنیا کی بہت سی باتوں سے واقفیت نہیں ہوتی۔ وہاں ان تدریسی وسائل کا استعمال لازمی ہے۔ ساتھ ساتھ آج کل بعض اسکول پرائمری سطح پر کمرہ جماعت کو عصری ٹیکنالوجی سے لیس کر رہے ہیں۔ ہر کمرہ جماعت کو پروجیکٹر سے آراستہ کرتے ہوئے لیپ ٹاپ اور تعلیمی سی ڈیز کی مدد سے اپنے سبق کو بہتر انداز میں پڑھا رہے ہیں۔ 

اس طرح کے اسکولوں کو سائبر اسکول اور کلاس کو اسمارٹ کلاس کا نام دیا جا رہا ہے۔ بعض تعلیمی ادارے ماہرین کمپیوٹر اور گرافکس و اینیمیشن کی مدد کے ساتھ کتابوں کے روایتی سائنسی سماجی علوم اور ریاضی و زبان کے اسباق کو معیاری بنا رہے ہیں۔ان میں تعارفی کلاسیس انٹر نیٹ پر دستیاب ہوتی ہیں۔ تعلیمی ادارے کے لوگ کسی تعلیمی ادارے سے معاہدہ کرتے ہیں۔ ان کے نصاب یا خود ادارے کے نصاب کی مکمل کلاسز کے اسباق انٹر نیٹ اور خصوصی پاس ورڈ کے ذریعے دستیاب کراتے ہیں۔

 اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کیسے اسمارٹ کلاس میں پڑھائیں۔ جو تعلیمی ادارے اس طرح کی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں ان کے بچوں میں اور روایتی کتاب کاپی قلم سے سیکھنے والے تعلیمی اداروں کے طلبا کے معیار تعلیم میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ تعلیم ایک مسلسل عمل ہے۔ اور اس میں والدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ طلباء کو معیاری تعلیم دینے کے لئے عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھیں۔ اسکولی سطح پر طلبا کو خصوصی انٹرنیٹ پروگرام کے ذریعے تعلیم کے علاوہ کسی موضوع پر پہلے سے دستیاب سی ڈی کا پروگرام دکھاتے ہوئے بھی تعلیم دی جا رہی ہے۔ 

آج کل کتابوں کی دکانوں میں چھوٹے بچوں کے لئے نظموں کے سی ڈی، انگریزی بول چال سیکھنے کی سی ڈی، وائیلڈ لائف سی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں۔ ایسے والدین جو گھر میں کمپیوٹر یا سی ڈی پلیر رکھتے ہیں۔ وہ اس طر ح کی معلوماتی سی ڈی حاصل کرتے ہوئے گھر پر بھی بچوں کو ٹیکنالوجی کی مدد سے تعلیم فراہم کر سکتے ہیں۔ انٹر نیٹ تو ان دنوں معلومات کی فراہمی کا سب سے اہم اور ایک طرح سے آسان ذریعہ ہو گیا ہے۔ 

Googleسرچ انجن کا دعویٰ ہے کہ اس کے ہاں سب کچھ ملتا ہے۔ کسی لفظ کے معنی معلوم کرنا ہو، کسی اور زبان میں اس کا ترجمہ کرنا ہو، کسی موضوع پر تفصیلی معلوماتی مضمون درکا ر ہو، کسی موضوع کی تصویر درکار ہو یا کسی موضوع پر ویڈیو چاہئے بس گوگل کی سہولتوں ترجمہ،تصاویر، ویکی پیڈیا یا یوٹیوب پر جائیے آپ کی پسند کی ہر چیز اور ہر موضوع کی معلومات دستیاب ہیں۔ اس کے لئے سرچ انجن میں درست الفاظ ٹائپ کرنے ہوں گے۔ والدین اور اساتذہ اگر طلبا پر نگرانی رکھیں، ان کے لئے تعلیمی ویب سائٹس تک رسائی کو ممکن بنائیں تو بچے چھٹی کے اوقات میں انٹر نیٹ سے بہتر طور پر استفادہ کر سکتے ہیں۔ 

جن طلبا کو کمپیوٹر پر ٹائپنگ آتی ہو وہ کوئی سبق ٹائپ بھی کر سکتے ہیں۔ بعض تعلیم ادارے اپنے طلباء کو اس طرح کا ہوم ورک دے رہے ہیں اور ای میل کے ذریعے ہوم ورک کی جانچ ہو رہی ہے۔ بعض طلباء کو ڈرائنگ میں دلچسپی ہوتی ہے۔ ان طلباء کو پینٹنگ اور ڈرائنگ میں ماہر بنانے کے لئے کمپیوٹر کے ورڈ آرٹ سافٹ ویر سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اس طر ح اسکول کی سطح پر اسمارٹ کلاس، لیپ ٹاپ، سی ڈی اور انٹر نیٹ کی مدد سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تعلیم کو بہتر، معلوماتی اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔

کالج کی سطح پر بطورتدریسی وسائل جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

ایک معیاری اسکول سے فارغ جب ایک طالب علم کالج کی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو کالج کے انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کالج کوتدریسی وسائل کے طور پر عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھے۔ چنانچہ کالج کا ہر کمرہ جماعت ای کلاس روم ہو جہاں اساتذہ کے لئے پروجیکٹر کے استعمال کی سہولت ہو۔ طلبا بھی اس سہولت سے استفادہ کر سکیں۔ کالج کا طالب علم عنفوان شباب کی عمر کے دور سے گذر رہا ہوتا ہے۔

 آج کل طالب علم انٹر نیٹ، ٹیلی ویژن اور سیل فون کے اچھے برے اثرات کے ساتھ کالج کے ماحول میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ایسے میں طالب علم کی صلاحیتوں کو مثبت افکار کی جانب موڑنا ایک ماہر تعلیم استاد کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ چنانچہ کالج کے کلاس روم میں بھی روایتی کتاب :بلیک بورڈ اور چاک پیس و نقشہ جات کے علاوہ ایک ماہر استاد اپنے لیپ ٹاپ اور پروجیکٹر کی مدد سے طلباء کو اپنے سبق کو بہتر طور پر سمجھا سکتا ہے۔ اس کے لئے استاد کو کمپیوٹر کا ماہر ہونا ہو گا۔

 وہ پاور پوائنٹ سہولت کی مدد سے مختلف معلوماتی سلائیڈز کی مدد سے اپنے سبق کو بہتر دلچسپ اور عصر حاضر کے تقاضوں سے متعلق ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ سائنس کے مضامین ہوں کہ کوئی اور مضمون جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے بہتر طور پر سمجھایا جا سکتا ہے۔ ای کلاس کے لئے اسباق کی تیاری ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ اسے گھر بیٹھے تیار کرنا سب کے بس کی بات نہیں۔ اور اگر ایک معیاری سبق تیار ہو تو قومی سطح پر اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ کالج کی سطح پر لائبریری کو بھی عصر حاضر کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ 

اگر لائبریری میں مختلف موضوعات کے سی ڈی ہوں، کوئی طالب علم لائبریری میں بیٹھ کر کمپیوٹر کی مدد سے وہ سی ڈی دیکھ سکتا ہو تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ کالج کی لائبریری کے ایک ہال میں ایک بڑا مانیٹر لگایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی دن کوئی مضمون کا لیکچرر غیر حاضر ہو تو لائبریری کا انچارج طلباء کے لئے اس مضمون سے متعلق سی ڈی لگاسکتا ہے اور ساری کلاس ایک لیکچرر کی غیر موجودگی کے باوجود وقت پر ایک اہم لیکچر سے مستفید ہوسکتی ہے۔ سوشل میڈیا جیسے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کو بھی فروغ تعلیم کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے طالب علم فیس بک کے دیوانے ہیں۔

 اگر کوئی تعلیمی ادارہ یا استاد اپنا ایک فیس بک گروپ رکھے، اس میں اپنے طلبا اور ماہرین تعلیم کو ممبر بنائے اور معلومات اور اہم اعلانات کا تبادلہ ہو تو اس سے طلبا کی تعلیمی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔ اس طرح تعلیم کے فروغ میں سوشیل میڈیا کا بہتر استعمال ہوسکتا ہے۔ اور طلبا کی صلاحیتوں کو منفی رجحانات کے بجائے مثبت رجحانات کی جانب موڑا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین