• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمہیں سلیمان مرزا کا الیکشن یاد ہوگا۔ ایک طرف مرزا تھے اور بڑے بڑے نامی رئیس، دوسری طرف روح اللہ اور شہر بھر کے اساطی بساطی، کنجڑے اور قصائی، لیکن صاحب مقابلہ ایسا کڑاتھا کہ مرزا کو دانتوں پسینہ آگیا۔ وہ دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر خوب چہکتے تھے لیکن جہاں جلسہ گاہ میں قدم رکھا،حواس غائب غلہ ہوگئے۔ان کے مقابلے میں روح اللہ چھٹا ہو ا گرگا تھا، جس کی ساری عمر ان ہی کھیلوں میں کٹ گئی تھی۔اگرچہ پھوٹی کوڑی تک پاس نہیں تھی،مگر لوگوں کے دلوں میں اس کا کچھ ایسا رعب تھا کہ جہاں اس کا پسینہ گرتاتھا، لوگ خون گرانےکو تیار ہوجاتے تھے۔

مرزا سے میری پرانی صاحبِ سلامت تھی،اس لیے جب انہوں نے کہا کہ بھیا دوستی کی آزمائش کا یہی وقت ہے، تومیں مجبور ہوگیا۔تم جانتے ہو الیکشن کیا ہوتا ہے؟ راتوں کی نیند اور دن کا آرام حرام،زمین کا گز بنے ہوئے ہیں۔جن لوگوں کی صورت سے گھن آتی ہے ، انہیں چچا ،باوا بنا رہے ہیں۔

ایک دفعہ دوپہر کو میں گھر آیا ، کیا دیکھتا ہوں کہ بیگم ٹوٹی کھٹوائی پڑی ہیں۔ پوچھا ’’ خیر باشد‘‘؟

کہنے لگیں،’’ کوئی مرے یا جئے، تمھیں کیا؟‘‘

میں نے کہا واقعی میرا قصور ہے۔ میں کئی دنوں سے ایسا مصروف ہوں کہ تم سے دو باتیں بھی نہیں کر سکا۔‘‘

بس اتنا کہنا تھا کہ بھڑک اُٹھیں اور کہنے لگیں،’ننھی بچی تو نہیں جو ان باتوں کو نہ سمجھوں۔میں تو اُڑتی چڑیا کے پر گِن لیتی ہوں، یہ اور بات ہے کہ سینے پر صبر کی سِل رکھے بیٹھی ہوں۔ سب کچھ دیکھتی ہوں اور اُف تک نہیں کرتی۔ میں پوچھتی ہوں یہ گھر ہے یا سرائے کہ جب جی چاہا چل دیئےاور جب آئےدو ایک موئے خدائی خور ساتھ ہیں۔ کھانا منگوایا۔آپ بھی کھایا، انہیں بھی کھلایا، پھر حقےکے دو کش لگائے، دودوگلوریاں ڈبیا میں رکھیں، دودو کلے میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ میں تو کہوں یہ گھر سرائے سے بھی بدتر ہے۔ سرائے میں یہ طریقہ برتو ، تو بھٹیارا بڑھ کے گردن ناپے کہ حضور میرا حساب چکا کر جائیے۔وہ مسٹنڈا جسے تم پرسوں ساتھ لائے تھے، کون ہے؟ کل صبح پھر آیا تھا ۔ میں نے کریمن کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ میاں گھر پر نہیں، شاید دوپہر کو آجائیں۔کہنے لگا کہ ’’میں اس تپتی دھوپ میں اب کہاں جاوٗں گا، یہیں انتظار کر لیتا ہوں۔ ہاں ذرا بھاوج سے کہہ دینا ، پان لگا کر بھیج دیں میں حقہ نہیں پیتا ،البتہ سگریٹ پی لینے میں مضائقہ بھی نہیں سمجھتا، کچھ سگریٹ ہوں تو بھجوادیجیے۔ دوپہر کا کھانا بھی یہیں کھاؤں گا، میرے لیے کوئی خاص تکلف کرنے کی ضرورت نہیں گھر میں جو پکا ہو لے آنا۔ 

ہاں دستر خوان پر میٹھے ٹکڑے ضرور ہوں، تھوڑی سی بالائی بھی منگوالیجیے۔میں نے کہلا بھیجا کہ دیوان خانے کی چابی آپ کے بھائی کے پاس ہے۔ کھانا آج نہیں پکے گا، کیوں کہ سب کا روزہ ہے۔ بہرحال دوپہر کو تشریف لے آئیے گا، اس وقت آپ کے بھائی بھی یہیں ہوں گے اور کھانے کا کیا ہے بازار سے آجائے گا۔یہ سن کر وہ بڑ بڑاتا ہو ا رخصت ہو گیا، مگر تھوڑی دور جاکر پلٹا اور کہنے لگا اچھا دو گلوریاں ہی بھجوادیجیے۔ ناچار پان لگا کر بھیجے اور وہ انہیں زہر مار کر کے ٹلا۔ کچھ انصاف کرو تمھاری ساری آمدن مل ملا کے سو روپے ہوگی،اس پر اتنا بڑا کنبہ ،آئے گئے کی مہمانداری کاخرچ،پھر تمھارے دوستوں کی فرمائش، خیر اسے بھی جانے دو،یہ راتوں کو غائب رہنا تم نے کس سے سیکھا؟کبھی آدھی رات آکے دروازہ کھٹکھٹایا۔کبھی پہلے پہر تشریف لے آئے۔ میں بھی تو سنو ،آخر راتوں کو کیا مصروفیت رہتی ہے؟‘‘

میں نے کہا،’’الیکشن کی مصیبت سر پر ہے، وہاں سے آدھی آدھی رات کو گلو خلاصی نہیں ہوتی۔ہر رات کو کہیں نہ کہیں جلسہ ہوتا ہے۔‘‘

کہنے لگیں، ’’ تم نے اچھا کیا کہ صاف صاف میرے منہ پر کہہ دیا۔ میرا ماتھا تو اسی دن ٹھنکا تھا جب تم اور نذیر بھائی طوائف الملوکی، طواف الملوکی کہہ رہے تھےاور میں دروازے کے پٹ کے ساتھ لگی تمھاری باتیں سن رہی تھی۔ میں تمھاری طرح فارسی اور انگریزی پڑھی ہوئی نہ سہی لیکن طوائف الملوکی کا مطلب تو سمجھتی ہوں۔ آخر تمھارے یہی ارادے ہیں نا ، کسی مال زادی کو گھر میں لا بٹھاؤ اور میری چھاتی پر مونگ دلو۔ پارسال اس موئی گلشن سے پینگ بڑھ رہے تھے، اب اس کی بہن کوئی بی الیکشن آگئی ہیں۔ راتوں کو ان کے ہاں جلسے رہتے ہیں۔ خیر تم نےاپنادیدہ ہوائی کیا ہےتو راج رجو، مگر بندی کو آج میکے رخصت کردو۔ماں ،باپ نہ سہی، اللہ بھائیوں کو زندہ رکھے۔ موئی مٹی کی نشانی مجھ کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ ہانڈی چولہے کے دھندے سے تو چھوٹوں گی۔‘‘

میں نے ہر چند الیکشن ،ووٹ،طوائف الملوکی کا مطلب سمجھایا ، مگر اللہ کی بندی کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئی۔خیر ،اس وقت تو میں ہار کے چلا گیا ،لیکن شام کو واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھر سنسان پڑا ہے۔ نوکر سے پوچھا ،’’کیا ماجرا ہے؟‘‘

وہ کہنے لگا کہ بی بی ، کریمن کو ساتھ لے کر اپنےمیکے چلی گئی ہیں۔ ‘‘ مرزا سلیمان تو کسی نہ کسی طح الیکشن جیت گئے، مگر ہمارے گھر میں الیکشن کی وجہ سے ایسی پھوٹ پڑی کہ بیگم تین مہینے میکے میں بیٹھی رہیں۔ تین مہینے بعد منتوں ،خوشامدوں سے آئیں بھی تو روز کی کل کل سے میرا ناک میں دم ہوگیا۔ خیر صاحب اس واقعے سے ایسی نصیحت ہوئی کہ میں نے پھر کبھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔

تازہ ترین