• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی فلموں کی بیرونِ ملک پزیرائی

اگر آپ کو امریکا میں بنی ہوئی شان دار گاڑی پانچ لاکھ روپے میں ملے تو ،کیا آپ اِنہی پیسوں میں اپنے ملک میں بنی ہوئی کم شان دارگاڑی خریدنا پسند کریں گے ؟اگر آپ کو اپنے ملک میں بنی ہوئی گاڑی آدھی قیمت میں ملے تو ،کیا گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوگا؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ فلمی صفحے پر گاڑی کی معلومات یا سوالات غلطی سے چھپ گئے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں، کیوں کہ یہ جو گاڑیوں سے متعلق سوالات اٹھائیں گئے ہیں، وہ ہماری فلم انڈسٹری سے متعلق ہیں۔ آپ صرف لفظ ”گاڑی“ کو ”فلم“ سے تبدیل کرلیں، سب آسان ہوجائے گا۔ اگر اب بھی آپ نہیں سمجھے تو ہم آپ کو سمجھاتے ہیں، لیکن نتیجہ آپ کو خود نکالنا ہوگا ۔مثلا اگر 8ارب روپے مالیت سے بننے والی” مشن امپاسبل“ جو دنیا بھر میں اب تک چالیس ارب روپے کا بزنس کرچکی ہے، وہ یہاں پاکستان میں دو ،تین ، چارکروڑ روپے کی پڑتی ہے یا پھر کمیشن پر معاملہ طے پاتاہے اور وہ یہاں سے بارہ کروڑ تک کا بھی بزنس کرتی ہے تو سب کی جیب میں ٹھیک ٹھاک پیسہ آتا ہے، لیکن انہی دو سو سے کم سینما گھروں میں پاکستان میں بننے والی کسی بھی 8کروڑ تک بننے والی فلم کوپرافٹ میں آنے اور اگلی فلم بنانے کی ہمت کرنے کے لیے کم سے کم 20کروڑ کا بزنس کرنا پڑے گا۔دل چسپ بات یہ ہے کہ دونوں فلموں کے ٹکٹ کا ریٹ بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں کی فلموں کو فروغ دینے کے لیے فلم پر لاگت بھی کم ہونی چاہیے۔ دوسرا ان کے ٹکٹ میں بھی فرق ہونا چاہیے۔ان دونوں چیزوں کے لیے ڈیوٹیز اور ٹیکس میں واضح کمی ہونی چاہیے۔ فلم بنانے پر نہیں اس کے” پرافٹ “پر ٹیکس لگنے پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے، یہاں کے فلم بنانے والوں کو اپنے مالی معاملات بھی انتہائی شفاف رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں ہوگا کہ فلم بنی دو کروڑ کی ہو اور دعوی چار کروڑ کا کیا جائے ۔سینسر پالیسی بھی یہاں کے لیے نرم اور باہر کی فلموں کے لیے سخت ہونی چاہیے ۔باہر کی فلموں پر کسی دور میں بھی پابندی لگانا غلط تھی اور آئندہ بھی غلط ہوگی، کیوں کہ مقابلہ تو کرنا ہے اور سب کا کرنا ہے۔ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں کی وجہ سے ہی سینما گھروں کی بقا اور یہاں کی فلموں کا ”ریوائیول “ممکن ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں۔

بڑے بڑے سینما گھروں کے ٹکٹ،بزنس اور شوز کے معاملات انتہائی شفاف ہوتے ہیں ، جہاں ہر چیز کو دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ یہی شفافیت پروڈیوسرز، ڈسٹری بیوٹرز اورایگزیبیٹرز کے ساتھ ایکٹرز کو بھی برقرار رکھنی ہوگی۔ پاکستان کے فلمی معیار کی بات ہو تو یہاں کیک ،موٹر سائیکل گرل اور ساون جیسی”بالکل مختلف “ فلمیں بن رہی ہیں۔طیفا ان ٹربل،پنجاب نہیں جاوٴں گی،ایکٹر ان لا،رانگ نمبر اور جوانی پھر نہیں آنی جیسی کمرشل مسالہ فُل انٹر ٹینمنٹ فلمیں بن رہی ہیں۔پاکستان میں ہالی وڈ ،بالی وڈ سمیت تمام ٹاپ فائیو فلموں میں سے تین پاکستانی فلمز ہیں۔ سنجو،پنجاب نہیں جاوٴنگی،جوانی پھر نہیں آنی ، سلطان اور طیفا ان ٹربل پاکستان میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلمیں ہیں۔ اب امکان یہ ہے کہ طیفا ان ٹربل سب سے آگے آجائے گی۔ کیا یہ تینوں فلمیں پاکستان کا فخر نہیں ؟کیوں کہ پاکستان میں بالی وڈ اور بالی وڈ اسٹارز کو بھی اتنا ہی چاہا جاتا ہے، جتنا یہاں کہ اسٹارزکواور یہاں کسی قسم کا کوئی تعصب نہیں۔ کچھ لوگ تنقید کرتے ہیں کہ باہر ریلیز سے پاکستانی فلموں کو کیا ملتا ہے، تو ان کو جواب ہے کہ ”پہچان“ اور یہ ایک آہستہ لیکن لمبے وقت کی سرمایہ کاری بھی ہے۔ چین سے بالی وڈ کی فلموں کو کچھ نہیں ملتا تھا،عامر خان کی فلمیں وہاں دس کروڑ سے پچاس کروڑ تک کے بزنس تک آئیں، جن میں سے واپس شاید ایک آدھ کروڑ آیا ہو، لیکن پھر ’’پی کے‘‘ نے صرف چین میں سو کروڑ اور دنگل نے تو دو ہزار کروڑ کے قریب بزنس کیا۔ یعنی لمبی انوسیٹمنٹ اور اعتبار کا فائدہ ہوا اور دنگل سے عامر خان کو کم سے کم تین سو کروڑ صرف چین سے ہی واپس پرافٹ ملا۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پاکستانی فلمیں پہچان بنارہی ہیں اور خدا کے لیے ، بول کے بعد،پنجاب نہیں جاوٴنگی ،کیک اور جوانی پھر نہیں آنی کے بعد اب طیفا نے بھی خاص طور پر برطانیہ میں بھی زبردست بزنس کیا ہے ۔پنجاب نہیں جاوٴنگی کا تو ریلیز کا پہلا ہفتہ وہاں فی اسکرین یا شوز کی ایورج کے حساب سے سب ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں سے بھی آگے رہا تھا۔

یہاں کے حالات کے حساب سے فلم بنانا مشکل بزنس اور فلم پوری فیملی کے ساتھ دیکھنا بھی مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ فلم کے ساتھ لوازمات ہو تو ایک چھوٹی فیملی کو بھی اچھے سینما میں پوری فلم کا ایک شو پانچ ہزار کے قریب پڑتا ہے ۔ایک اچھی اور محفوظ اینٹر ٹینمنٹ کے باوجود پانچ ہزار کافی بڑی رقم ہے ۔ پاکستان میں فلم بنانے والوں کو بیٹھ کر اپنی اپنی فلموں کو ٹی وی چینلزمیں قید کرنے کے بجائے انھیں آزاد رکھنے کی پالیسی بھی بنانی پڑے گی۔فلم بنانے والوں اور اس میں کام کرنے والوں کو اپنے آپ کو لچکدار بنانا ہوگا، تاکہ کم سے کم فلم کے دنوں میں ان کا رابطہ سب سے آسانی سے ہوسکے چاہے۔ اس کام کیے کوئی کوآرڈینٹر کی مدد لینی پڑے، کیوں کہ بزنس اور بجٹ سے لےکر کئی سوالات ہوتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں دیتا۔ فلم بنانے والوں کو بھی اپنی فلم محنت کے ساتھ بنانی ہوگی ،جونیئرز کو سینئرز کا سہارا اور سینئرز کو جونیئرز کی مدد لینی ہوگی۔ہالی وڈ یا بالی وڈ کسی بھی فلم پر پابندی لگانا مسئلہ کا حل نہیں، بلکہ خود بڑا مسئلہ ہے، کیوں کہ یاد رہے کہ اگر آپ امریکا یا کسی بھی اور ملک کی پانچ لاکھ کی گاڑی پر پابندی لگوا کر اپنی دو لاکھ والی گاڑی چھ لاکھ میں فروخت کرنی کی کوشش کریں گے تو نتیجہ تباہی ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین