• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹرسمیحہ راحیل قاضی

عثمانی سلطنت کے جاہ و جلال کا خُوب صُورت منظر آنکھوں کو تازگی بخش رہا تھا۔ ایک طرف’’ نصر من اللہ و فتح قریب‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے، تو دوسری طرف، مہتر بینڈ عثمانی دَور کے ترانے گا رہا تھا۔ گھوڑوں کی ٹاپوں اور توپوں کی گھن گرج میں تُرک صدر، رجب طیّب اردوان اور اُن کی اہلیہ، ایمن اردوان اسٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے۔ خاتونِ اوّل کا خُوب صُورت عثمانی طرز کا حجاب اور گائون سب کی توجّہ کا مرکز بن گیا۔ یہ طیّب اردوان کی تقریب حلف برداری تھی، جس میں پوری دنیا سے اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس تقریب میں تُرک معاشرے کی یہ خُوب صُورت روایت بھی نظر آئی کہ حجاب میں ملبوس عورتیں بھی اپنے پورے افتخار کے ساتھ موجود تھیں، جیسا کہ دوسری خواتین۔ زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا کہ تُرکی میں اس کی ایک رُکنِ پارلیمان کو محض اس لیے ایوان سے نکال دیا گیا تھا اور پھر اُنھیں تُرکی کی شہریت سے بھی محروم کردیا گیا کہ وہ ایوان میں حجاب کے ساتھ داخل ہوئی تھیں۔ آج وہی ملک بدر ہونے والی خاتون، مروہ قواچی ملائیشیا میں تُرکی کی سفیر ہیں اور اُن کی بہن، روضہ قواچی حکم ران پارٹی میں انسانی حقوق کمیٹی کی سربراہ کے طور پر ذمّے داریاں ادا کر رہی ہیں۔

ہم نے تُرکی کے سابق نائب وزیرِ اعظم، ڈاکٹر نعمان قرطمش کی صاحب زادی کی شادی کی تقریب میں شرکت کی، تو وہاں بھی یہ دیکھ کر تُرک معاشرے پر بہت ہی رشک آیا کہ کچھ عرصہ قبل تک جس اسلامی تہذیب کا تصوّر بھی محال تھا، اب وہاں کی خواتین اُسے اپنا رہی ہیں۔ وہاں کی سیکولر جمہوریت میں یورپ کا پورا کلچر سرایت کر گیا ہے اور ہمارے دانش وَر آج بھی اُنھیں سیکولرازم اور اُن کے مغربی کلچر کا طعنہ دیتے ہیں۔ شادی میں زیادہ تر حکومتی عُہدے دار اور امراء مدعو تھے۔ صدرِ مملکت، رجب طیّب اردوان اپنی اہلیہ کے ساتھ موجود تھے، مگر عورتوں کی اکثریت حجاب اور ساتر لباس میں تھیں۔ دُلہن اپنی سہیلیوں کے جُھرمٹ میں نمودار ہوئی، تو تمام لڑکیاں اور دُلہن حجابی وقار کا اعلیٰ نمونہ پیش کررہی تھیں۔ حجاب کے اس بڑھتے ہوئے رجحان پر خوش گوار حیرت ہوئی۔نیز، حکم ران پارٹی کے دفتر جانا ہوا، تو وہاں عورتوں کے لیے نماز اور وضو کی الگ جگہ موجود تھی۔

امریکا کے مشہور تھنک ٹینک، Pew Research Centre (جس کی رپورٹس کو عمومی طور پر دنیا بھر میں اہمیت دی جاتی ہے ) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، سات مسلم اکثریتی مُمالک، پاکستان، مِصر، سعودی عرب، عراق، لبنان اور تیونس میں کیے گئے ایک سروے میں پاکستان میں اٹھانوے فی صد افراد گھر سے باہر نکلتے وقت عورت کو پردے کی کسی نہ کسی صُورت میں دیکھنا چاہتے ہیں، جب کہ صرف دو فی صد افراد عورت کے ننگے سر باہر نکلنے کے حامی ہیں۔نیز، پاکستان میں رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد( بتیس فی صد) عورتوں کے لیے سعودی برقعہ، جس میں صرف آنکھیں نظر آتی ہیں، لے کر گھر سے نکلنے کی حامی ہے۔ اکتیس فی صد پاکستانیوں کی رائے میں عورت کو ایرانی طرز کی چادر، جس میں چہرے کاپردہ نہیں ہوتا، اوڑھ کر گھر سے نکلنا چاہیے۔ چوبیس فی صد پاکستانیوں کی رائے میں عورت کو کم ازکم اسکارف تو ضرور پہن کر گھر سے باہر جانا چاہیے۔ آٹھ فی صد کی رائے میں عورت کو سر پر دوپٹا لے کر باہر نکلنا چاہیے، جب کہ دو فی صد کے خیال میں خواتین کو افغانی برقعہ پہننا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف دو فی صد افراد عورتوں کے دوپٹے کیے بغیر باہر نکلنے کے حامی ہیں، جب کہ سعودی عرب میں ایسے افراد کی تعداد تین فی صد، عراق میں چار فی صد، مِصر میں چار فی صد، تیونس میں پندرہ فی صد، تُرکی میں بتیس فی صد اور لبنان میں سب سے زیادہ 49فی صد ہے۔ یاد رہے، لبنان میں تقریباً چالیس فی صد عیسائی رہتے ہیں، جب کہ وہاں مسلمان تقریباً 54فی صد ہیں۔ اس سروے کے مطابق لبنان کے 51فی صد لوگ، جب کہ باقی مسلمان مُمالک کی واضح اکثریت (پاکستان 98فی صد، سعودی عرب 97فی صد، تُرکی 68فی صد، عراق 97فی صد، مصر 96فی صد، تیونس 85فی صد)پردے کی کسی نہ کسی حد کے ساتھ عورت کے باہر نکلنے کی حامی ہے۔ اس سروے نے مسلمانوں کی حجاب سے محبّت کو آشکار کردیا ہے، مگر مغربی میڈیا کے ساتھ، ہمارامیڈیا بھی اس رپورٹ کے مندرجات کو عوام کے سامنے لانے سے گریزاں رہا کہ حجاب کے اس ٹکڑے نے اربوں ڈالرز کی فیشن انڈسٹری کو ٹھوکر پر رکھا ہوا ہے۔ فیشن شوز، میک اپ انڈسٹری اور مغرب زدہ معاشرہ حجاب سے ایسے ڈرتا ہے، جیسے لوگ موت سے ڈرتے ہیں۔

عورت، اللہ تعالیٰ کے لُطف و جمال اور صفتِ تخلیق کی مظہر ہے۔ شیطان جب کسی سماج کو تباہ کرنا چاہتا ہے، تو سب سے پہلا وار، عورت کی صفتِ حیا ہی پر کرتا ہے۔ یہی اس کی اوّلین اور پسندیدہ چال ہے، جو اُس نے حضرت آدم علیہ السّلام اور بی بی حوّا علیہ السّلام پر آزمائی اور اس جال میں آج تک حضرتِ انسان کو پھنساتا چلا آ رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد اسلام اور اسلام کی علامات، خاص طور پر حجاب کے خلاف مغرب کے متعصبانہ رویّوں اور میڈیا نے بھرپور مہم جاری رکھی ہوئی ہے اور بدقسمتی سے اس کا اس طور جواب بھی نہیں دیا گیا، جیسا کہ حق تھا، مگر شرق و غرب میں بیدار ہوتی نوجوان نسل نے اب اقدام کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس کی ایک علامت حجاب کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ ایک سفارتی تقریب میں ایک نام نہاد پاکستانی دانش وَر بڑے افسردہ لہجے میں کہہ رہے تھے کہ’’ ہمارے زمانے میں تو یونی ورسٹیز میں حجاب والی لڑکیاں خال خال نظر آتی تھیں، اب تو آپ نے زبردستی ایک مہم کے ذریعے ہر طرف حجاب والی بچّیوں کو پھیلا دیا ہے۔‘‘ جواباً ہم نے کہا’’ محترم! حجاب کسی کو زبردستی نہیں کروایا جاتا اور یہ حجاب، جسے آپ جبر اور قید کی علامت سمجھتے اور سمجھاتے رہے، اب مسلمان عورت کی آزادی کی علامت بن کر ابھر رہا ہے۔ یہ ہمارا وقار، ہمارا افتخار اور اعتبار بن گیا ہے۔ ہم اُسی آخری آسمانی ہدایت کی طرف لَوٹ رہے ہیں، جس میں ہمیں بشارت دی گئی ہے کہ’’ ایک نبیٔ محترم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اُن بوجھوں سے نجات دینے آئے ہیں، جنہیں معاشرے نے تمہارے اوپر لاد دیا تھا اور تمہیں اُن زنجیروں سے آزاد کروانے آئے ہیں، جنہوں نے تمہیں جکڑ لیا تھا۔‘‘

جولائی 2004ء میں لندن میں عالمی اسلامی تحریکوں کے رہنما، علّامہ یوسف القرضاوی کی سربراہی میں ایک کانفرنس میں حجاب پر پابندی کے قانون کے خلاف طے کیا گیا’’ چوں کہ ستمبر 2003ء میں یہ قانون پاس ہوا ہے، اس لیے آیندہ 4ستمبر2004ء کو پوری دنیا میں’’ عالمی یومِ حجاب‘‘ منایا جائے گا۔‘‘ اُس کے بعد سے ہر برس 4 ستمبر کو دنیا بھر میں ’’یومِ حجاب‘‘ منایا جا رہا ہے۔درحقیقت دَورِ جدید فکری اور تہذیبی انتشار کا دَور ہے۔ خاندان کا ادارہ کم زور پڑ رہا ہے۔ عورت، جو کہ خاندان کا مرکز تھی اور معاشرے کا نکتۂ ارتکاز، وہ جب تک اپنے کردار کو ادا کرتی رہتی ہے، معاشرے میں اُس کی عزّت و توقیر بڑھتی رہتی ہے، مگر جب گھر کی ذمّے داریوں اور نسلِ نو کی تعمیر کو بوجھ گردانتے ہوئے نام نہاد آزادی اور حقوق کی دَوڑ میں سرگرداں ہوجاتی ہے، تو بے توقیر ہوجاتی ہے۔ ایک غلط خیال یہ بھی ہے کہ حجاب اور حیا کو صرف عورت ہی کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں، قرآنِ کریم میں حجاب کی آیات میں احکام کا آغاز مَردوں کو مخاطب کر کے کیا گیا ہے کہ’’ مَرد اپنی نظروں کی حفاظت کریں۔‘‘ معاشرے حیا، محبّت اور احترام کی قدروں سے نمو پاتے ہیں اور ترقّی کرتے ہیں۔ پہلے ہم مغرب کا رونا روتے تھے، مگر اپنے معاشرےکی طرف نظر دَوڑائیں، تو وہاں مغرب سے بھی بُرے حالات ہیں۔ اخلاقی قدریں بُری طرح پامال ہو رہی ہیں اور اخبارات قصور سانحے جیسی خبروں سے بَھرے نظر آتے ہیں۔ شادی بیاہ کی رسموں میں اس بُری طرح سے ہم اپنی اقدار کا جنازہ نکال رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اب تو اچھے خاصے مذہبی گھرانوں میں بھی اکٹھے ناچ گانوں کی محافل میں شریک ہونے کو بھی معیوب نہیں سمجھا جارہا۔ان حالات میں اکبر کے اشعار اکثر منہ چڑاتے ہیں کہ واقعی مَردوں کی عقل پر پردے دبیز ہوتے جارہے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کے لباس کی پروا ہی نہیں کرتے۔آج بھی ہمارے معاشرے میں عورت کا لباس دوپٹے کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے، مگر اب دوپٹے سے آزادی، جدیدیت اور ماڈرن ازم کی علامت بنا کر پیش کی جارہی ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حجاب کا تقاضا صرف برقعہ پہننے، چادر لپیٹنے اور ڈیڑھ گز کے ٹکڑے کو سر پر لپیٹ لینے سے پورا نہیں ہوتا، بلکہ باہم عزّت و احترام سے تمام طبقات کو محفوظ ماحول فراہم کرنے سے ہوگا۔ چوک، چوراہوں پر خواجہ سرائوں کے غول کے غول، میک اَپ میں لتھڑے چہروں کے ساتھ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ پھر شادیوں میں بھی لوگ اُنھیں تفریح کا ذریعہ بناتے ہیں۔ لہٰذا، اس’’عالمی یومِ حجاب‘‘ پر یہ عزم کیا جانا چاہیے کہ خواجہ سرائوں کو کوئی باعزّت روزگار دِلوانے میں مدد کریں گے۔نیز، گلی، محلوں میں کام کرنے والی ماسیوں کے اخلاق و کردار کو سنوارنے اور اُن کو تعلیم دینے کا بھی اہتمام کریں گے۔

مغرب میں ’’اسلام فوبیا‘‘ ایک مستقل اصطلاح بنتی چلی جارہی ہے۔ یکم جولائی 2009ء کو ایک مسلمان خاتون، مروہ الشربینی کو حجاب کے جرم میں جرمنی کی بَھری عدالت میں شہید کردیا گیا اور وہاں کی حکومت نے اس پر کوئی سنجیدہ ایکشن تک نہ لیا۔ ہمیں کبھی مروہ قواچی کی صُورت مُلک بدر کیا جاتا رہا اور کبھی مروہ شربینی کی صُورت قتل، مگر حجاب کا عزم توانا سے توانا ہوتا جارہا ہے۔ ایک کانفرنس میں ایک نو مسلمہ خاتون نے ہمیں مخاطب کر کے کہا’’ کیا آپ تصوّر کرسکتی ہیں کہ کوئی شخص وال اسٹریٹ کے ایگزیکٹیو یا واشنگٹن کے بینک عُہدے دار کو کہے کہ وہ ٹی شرٹ اور جینز پہن کر آئے۔ وہ کہے گا کہ اس کا بزنس سوٹ کام کے دَوران اس کی شخصیت کا عکّاس ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کے ساتھ سنجیدگی سے معاملات طے کیے جائیں۔ حجاب بھی مسلمان عورت کا بزنس سوٹ ہے اور یہ لباس اعلان کرتا ہے کہ اس خاتون کے ساتھ عزّت واحترام سے پیش آیا جائے۔‘‘ ہمارے ساتھ استنبول میں ایک بچّی کو دیر تک رُکنا پڑگیا، تو ہم نے اُس سے پوچھا’’ استنبول میں اکیلے سفر سے ڈر نہیں لگتا؟‘‘، تو اُس نے جواب دیا’’ مَیں اسکارف لیتی ہوں اور یہاں اسکارف والی عورتوں کی بہت عزّت کی جاتی ہے۔ اس لیے مَیں اپنے آپ کو محفوظ تصوّر کرتی ہوں۔‘‘مسلمان عورتوں کی ایک تنظیم،’’ انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین‘‘ کی ایک کانفرنس میں برطانوی صحافی، ایوان ریڈلی حجاب کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کررہی تھیں’’مَیں کئی برسوں سے تحریکِ نسواں کی حامی تھی اور اب مسلمان خواتین کے حقوق کی علم بردار ہوں۔ آزادیٔ نسواں کے علم برداروں سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ بتائیں، عورتوں کی آزادی کس چیز میں زیادہ ہے؟ اپنی اسکرٹ کو چھوٹا اور جسم کو کس حد تک نمائش کے لیے عریاں کرنے کو آزادی قرار دیا جائے گا یا پھر عورتوں کو اُن کے کردار، علم اور ذہانت کی بنیاد پر پرکھا جائے گا؟؟‘‘

ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اس’’ عالمی یومِ حجاب‘‘ پر یہ عزم کیا جائے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندوں کے لیے حقوق اور شعور کی آگاہی کی مہم چلائی جائے گی۔ حجاب، زبردستی اور جبر کا نام نہیں، بلکہ محبّت، ترغیب اور تعلیم کا نام ہے کہ عورت کی عزّت واحترام میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ نیز، ہم عورت کے لیے محفوظ ماحول مہیا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں کہ وہ قوم کی ترقّی میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصّہ ڈال سکے۔ حجاب، نقیبِ انقلاب بن کر دِلوں پر دستک دے رہا ہے۔ پس ماندگی کی علامت سے، آزادی کی علامت تک، حجاب کے ارتقاء کا یہ سفرجاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

تازہ ترین