• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا شاہد برلاس

ماہرین فلکیات کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق مریخ سیارے کے جنوبی قطب پرمنجمدبرف کے نیچے ایک بہت بڑی نمکین پانی کی جھیل چھپی ہوئی ہے۔ اگر یہ معلوما ت درست ثابت ہوئی تو یہ اولین مو قع ہوگا جب سرخ سیارے پر ر قیق پانی کے ذخیرہ کا پتہ چلا ہے ۔ علا وہ ازیں یہ مریخ پر زندگی کی مو جو د گی کی تلاش میں ایک قابل ذکر سنگ میل بھی ہوگا۔اٹلی کے شہر بولگونا میں قائم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف آسٹرو فزکس کے روبرٹو اوریسی کے مطابق زندگی کی دریافت کے لیےمریخ بہت منا سب سیارہ ہے۔جہاںاس کی مو جو د گی کی قوی اُمید کی جا سکتی ہےلیکن ہمیں اس بات کا بالکل بھی یقین نہیں کہ کیا وہ آباد ہو سکتا ہےیا نہیں۔ البتہ زمین پر اس طرح کے زیریں سطح گلشیر میں خورد حیات زندگی کی کالونیاں پائی جاتی ہیں ۔اوریسی کی سربراہی میں اٹلی کے محققین نے اس جھیل کی موجودگی کے شواہد یوروپین اسپیس ایجنسی کےمارس ایکسپریس نامی ایئر کرافٹ کے راڈار ڈیٹا سے حاصل کئے تھے۔

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ معلومات اُمید وبیم کی کیفیت پیدا کرتی ہیں ،کیوں کہ مریخ پر پانی کی تلاش کے معاملات میں متضاد آرا ہیں ، کیوں کہ اس معاملے میں ناقابل تردیدشواہد کے حصول کے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ کیلی فورنیا میں پیسیڈینا میں قائم ناساکی جیٹ پروپلشن لیباریٹری کے پلیٹینری سائنٹسٹ جیفرے پلائو نے پانی کی تلاش کے لیےمارس ایکسپریس سے حاصل کردہ راڈار کا جائزہ لیا تھا ۔ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک جتنی بھی معلومات حاصل کی گئی ہیں ان کو حتمی ثبوت نہیں کہا جاسکتا ہے۔

اگر مستقبل میں ہونے والے جائزوں میں جھیل کی موجودگی ثابت ہوجائے تو مریخ میں تحقیق کے لیے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا ایک نیا باب کھل جائے گا۔ محققین زمین پر موجود زیر یں سطح جھیل کی کھدائی کے بعداس کے پانی میںخورد حیات دریافت کرچکے ہیں۔ جب کہ دوسرے محققین نے ایسی ٹیکنالوجی ڈیویلپ کر نے کی کوشش میں ہیں، جس سے سیارہ مشتری کے یوروپا نامی چاند پر زیر یں سطح کے منجمد سمندر میں کھدائی کی جاسکے۔فی الوقت مریخ میں برف میںکھدائی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ البتہ حالیہ حا صل شدہ نئی معلومات سائنس دانوںکی سوچ میں تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے کہ وہ اس سیارہ میں مزید کیا دریافتیں کرنا چاہیں گے۔ چاں چہ ناسا کے چیف سائنسداں جم گرین کے مطابق یہ معلومات نئی دریافتوں کا ایک ایسا باب کھولتی ہیں جو بہت پرجوش اور دلچسپ ہے۔آج کی معلومات کے مطابق مریخ پر پانی مختلف اشکال میں موجود ہے جو اربوں سال پہلے کی اس وقت کی باقیات میں سے ہے جب یہ سیارہ نہایت گرم اور انتہائی مرطوب تھا۔ اس کے مدار میں چکر لگانے والے سیٹلائٹ کی مہمات سے برف اور کئی مقامات پرزیر سطح گلیشیروں کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ خلائی جہاز وںسے لی گئی بہت ہی ڈھلوان کی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ رقیق پانی کے بہنے کی وجہ کی نشان دہی کرتی ہیں اور ناسا کےکیوروسٹی روورنے سیارےکے ماحول میں آبی بخارات دریافت کئے ہیں۔اوریسی اور اس کے رفقا ء نے2003ءمیں لانچ کی گئی مارس ایکسپریس میں نصب ایک راڈار کے آلہ مارسس کی مدد سے یہ جھیل دریافت کی ہے ۔ یہ آلہ مریخ کی بیرونی سطح اور اندرونی سطح کی تہوں سے ٹکرا کر آنے والی ریڈیو لہروں سے وہاں پر موجود میٹیریل کی نوعیت ظاہر کرتا ہے۔ یعنی یہ چٹانیں ہیں یا برف ہیں۔ ماہرین نے اب اپنی توجہ اس برف اور مٹی کی سطحوں پر مرکوز کی ہے جو سیارہ کے جنوبی قطب پر پائی جاتی ہیں۔

لیکن مایوس کن بات یہ ہے کہ ان تمام مشاہدوں میںیکسانیت نہیں تھی۔ مارس ایکسپریس کسی بھی وقت چندمختلف مقامات پر چمکدار انعکاس کامشاہدہ کرتی تھی جو بعد میں ان ہی مقامات کے اوپر سے لگانے والے چکر میں مشاہدے میں نہیں آتے تھے۔آخرکار سائنس دانوں نے2012ءمیں فیصلہ کیا کہ مارسس حاصل کردہ ڈیٹا کوخودکار پروسیس کرنے سے پہلے ہی ڈیٹا کو زمین پر بھیج دیا کرے۔ اوریسی کا کہناہے کہ اس کے بعد تمام معاملات تبدیل ہوگئے تھے، کیوں کہ اب ان چمکدار مقامات کا سائنس داںخود مشاہدہ کر نے لگے تھے۔

ماہرین کو ان چمکدار انعکاسوں کے مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ وہ20 کلومیٹر لمبے ایک ایسے علاقے سے آتے ہیں ،جس کا نام پلینم آسٹریل رکھا گیا ہے۔ دوسرے ممکنہ امکانات مثلاً برفیلی کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کو رد کرنے بعد سائنس داں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ زیریں سطح پانی کاذخیرہ ہے۔یہ جھیل مریخ کی سطح کے ڈیڑھ کلومیٹر نیچے اور کم سے کم ایک میٹر گہری ہے۔ جب کہ پانی کو منجمد رہنے کے لئے بہت نمکین ہونا چاہیے۔ اوریسی کا کہنا ہے کہ شاید یہ کینیڈا کے آرکٹک علاقے میں اسی سال کے اوائل میںدریافت کردہ زیریں سطح کینیڈا کی جھیلوں کے مانند ہو ں۔جن کے نیچے کی نمک سے بھر پور چٹانیںپانی کو درآمد بھی کرتی ہیں اور اس کو رقیق رکھنے میں بھی مددگار ہوتی ہیں۔ یہ بات کینیڈا میںایڈمنٹن میں قائم یونیورسٹی آف البرٹا کے ((glaciologist انجارو تی شاسر نے اپنے بیان میں کہی تھی۔ مریخ پر نمک پر کلوریٹس ((perchlorates کی شکل میں موجود ہے۔ جوپانی کو نمکین بناتا ہے چوں کہ 2008ءمیں ناسا کے فینکس نامی خلائی جہاز نے سیارےکے شمالی قطب کی برف کے قریب کی مٹی میں پرکلوریٹس دریافت کئے تھے۔ناسا کے ماہرین کا خیال ہے کہ مریخ پر بھی یہی ہوسکتا ہے کہ ماضی میں یہاںپر بھی اسی طرح کی جھیلیں موجودہوں۔ جب سیارےکی اندرونی تپش کے باہر آنے سے قطبی علاقوں کی کچھ برف نے پگھل کر جھیلوں کی شکل اختیار کرلی ہویہ بات ایک پلیٹنری Playtenery) ) سائنس داں اسٹیفن کلفورڈ نے کہی تھی ۔انہوں نے 1987ءمیں پہلی مرتبہ یہ خیال پیش کیا تھا۔اگر پہلے کبھی مریخ کی زیریں سطح جھیلوں میں حیات پھل پھول رہی تھی تو ان کے خیال میں حالیہ معلومات اس کی بابت بہت اُمید افزا ہیں کہ مریخ پر اب بھی زندگی موجود ہے۔

مریخی جھیلوں میںرقیق پانی کے ساتھ ہی ضروری توانائی فراہم کرنے کے لیے مناسب کیمیائی اجزاء کی موجودگی وہ تمام عناصر فراہم کرتے ہیں جوحیات کی پیدائش اوراس کی افزائش کے لئے ضروری ہیں۔ بشرط یہ کہ یہ جھیلیں بہت زیادہ نمکین نہ ہوں۔ اس بات کا اظہار مونٹا نا اسٹیٹ یونیو رسٹی میں بایو جیو کیمسٹ جان پر سکو نے کیا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی حتمی دریافت آسان نہیں ہوگی۔ پرسکو ایک ایسی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں، جس کامنصوبہ انٹارٹیکا میں رواں سال زیریںسطح کی مرسرجھیل میں ڈرل کریں گے، جس کے لئے بہت دورافتادہ مقام پر ٹنوں وزنی مشینیں اور ایندھن کئی ہفتوں میں ٹریکٹر کے ذریعہ انٹارٹیکا کی برفانی چادر پرسفر کرکے پہنچا یا جائے۔فی الحال ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں کہ مریخ پر یہ تمام سامان پہنچا یاجاسکی۔

لیکن خلاء میںموجود خلائی جہازوں سے اب بھی بہت کچھ معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔ چناں چہ گرین کے مطابق ناسا کی انسائٹ نامی تفتیشی مشین جورواں سال نومبر میں مریخی خط استوا کے قریب اترنے والی ہے ۔اس کےذریعہ سائنس داں مریخی سطح سے 5میٹر کی بلندی پر خارج ہونے والی تپش کی پیمائش کرنے کے بعد یہ معلوم کرسکیں گے کہ جنوبی قطب کے نیچے سے کتنی تپش اوپر آرہی ہے جو برف کو پگھلاکر مزید کتنی جھیلوں کی پیدائش کا باعث بن سکتی ہےاوریسی کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے مریخی سطح پرمزید کچھ اور چمکدار انعکاس بھی دیکھے ہیں لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی جھیلیں ہیں یا نہیں۔وہ جائزے جن میںپلیٹینم آسٹریل میں ان چمکدار انعکاس کو نہیں دیکھا گیا تھا۔ اب مارسس اور ناسا کی مارس ریکائنسینس آربیٹر کے مستقبل کے مزید جائزوں سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ یہ چمکدار انعکاس واقعی پانی ہے یا کوئی اور چیز ہے۔یہ تمام معلومات اس لیے اہم ہیں کہ کیوں کہ زمین پر بڑھتی ہوئی آبادی اور انسانی عمر میں اضافے کی وجہ سے چند عشروں کے بعد تمام آبادی غذا کی فراہمی سے معذور ہوجائے گا۔ اس لیے ان عشروں میں انسانوں کی اضافی آبادی کو دوسرے سیاروں میں منتقل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کرنی ضرورت ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین