• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیگم کلثوم نواز پاکستان کی عظیم خواتین میں سے بلا شبہ ایک بڑی خاتون تھی جمہوریت کے لئے انکی خدمات مسلمہ اور بے مثال تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ 1999 سے پہلے نہ تو ان کا عملی سیاست سے کوئی تعلق تھا نہ ہی ان کا دل سیاست کے لئے بنا تھا۔ 1999 میں جب پرویز مشرف نے نواز حکومت کا خاتمہ کر کے مارشل لاء لگایا تو حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ سہم اور خوفزدہ ہو گئی۔ اس فیملی سے اپنے بھی نظریں چرانے لگے، سایہ بھی ساتھ چھوڑنے والی صورتحال پیدا ہو گئی۔ وفا شعار بیوی نے دلیرانہ جدوجہد کاآغاز کیا ان کی آمریت کے خلاف جدوجہد آج تاریخ کا سنہری باب ہے۔ یہ صرف شوہر سے وفا کا معاملہ نہ تھا ملک، پارٹی اورجمہوریت کی سلامتی و بقا بھی اس میں شامل تھی، وہ تنہا نکلی تھی اور قافلہ بنتا گیا۔

آمریت حیران و پریشان تھی کہ اس نہتی خاتون سے کس طرح نمٹا جائے، 12 اکتوبر 1999کو رائیونڈ جاتی عمرہ میں سخت فوجی پہرے بٹھا دیئے گئے اور تین ہفتے گزرنے کے بعد جب بطور صحافی مجھے وہاں جانے کا موقع ملا تو میں نے انہیں پرعزم پایا۔ انہوں نے مارشل لاء کے نفاذ کی وجوہات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کارگل کے حوالے سے پرویز مشرف کے خلاف کارروائی شروع ہونے والی تھی کہ اس سے پہلے انہوں نے شب خون مارا، وہ دل سوختہ ضرور تھی لیکن شاید 12 اکتوبر کے بعد ہی انہوںنے جدوجہد کی ٹھان لی تھی۔ ان کی تحریک کے بعد ہی پرویز مشرف نے اس خاندان کو اپنے اقتدار کیلئے خطرہ اور کانٹا محسوس کیا اور ان کو جلاوطن کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ بیگم کلثوم نواز نے اس تحریک کے دوران بہت حد تک پارٹی کو سنبھالا اور آمریت کی ایکسپوز کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انہوں نے اپنی تحریک کے دوران ہر جگہ پر سیاست دانوں سے رابطہ قائم کیا کہیں کامیابی اور کہیں ناکامی ہوئی۔ نوابزادہ نصراللہ سے ان کا رابطہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ انہوں نے یہ تحریک ایک وفا شعار بیوی کے ناطے شروع کی تھی لیکن اس تحریک کو بالآخر جمہوری جدوجہد میں تبدیل کر دیا۔ تحریک کے دوران ابتدا میں ان کی سیاسی شجرکاری کے باعث ان کو جو بھی جس طرح کا مشورہ دیا جاتا وہ سادگی میں اس کو قبول کر لیتی لیکن بہت جلد وہ سیاست کی شاطرانہ چالوں کو کسی حد تک سمجھ گئی اور اپنے فیصلے خود کرنے لگ گئی۔

راقم الحروف کا نواز شریف سے1985سے بطور صحافی رابطہ رہا، اس دوران بیگم کلثوم نواز سے بھی ایک گھریلو خاتون کے ان کی شخصیت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ادب سے گہرا لگائو رکھتی تھی، نواز شریف شعروشاعری والے شخص نہیں تھے لیکن بیگم کلثوم نواز کی محبت اور ذوق میں کچھ کچھ شاعری کی رمز ان میں بھی آ گئی۔ جب نواز شریف 1990 میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو شاعری کے علاوہ کچھ سیاسی امور پر بیگم صاحبہ بھی اپنا فیڈ بیک دیتی تھی۔ خواتین کے حقوق غریبوں کے مسائل معاملات سماجی بہبود کی سکیموں کے حوالے سے وہ ضرور مشورے دیتی رہیں۔ سننے میں آیا کہ کچھ تقاریر میں اور کچھ آرائیگی کے حوالے سے بیگم صاحبہ کی کاوشیں ساتھ رہیں۔ نواز شریف کا بیک گرائونڈ ایک صنعتی گھرانے سے تھا جبکہ بیگم کلثوم نواز ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ مصری شاہ کی رہائشی تھی اس لئے درمیانے طبقے کے مسائل سے زیادہ واقفیت رکھتی تھی۔

دولتمند ہونے کے باوجود ان میں ایک خاص طرح کی سادگی اور وقار تھا۔ انہوں نے کبھی بھی بہت زیادہ زیورات اور قیمتی لباس کو پسند نہیں کیا ان کو اس حوالے سے یاد نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کی دلسوزی ، ملنساری اور ہر ایک سے نیک نیتی اور خوشدلی سے ملنا ان کی پہچان رہے گی۔ انہوں نے اپنے تمام بچوں کی شادی غیر سیاسی ماحول میں کی اور اس میں سادگی کو ملحوظ رکھا ۔ وہ کیونکہ اپنے خاندان کی بڑی تھی اس لئے خاندان کو جوڑ کر رکھتی تھی۔ مذہبی رجحان جو اس خاندان کا وطیرہ ہے کو آگے بڑھانے میں ان کا خاص کردار رہا ۔ ہر سال عمرہ کرنے میں وہ پیش پیش رہیں۔2013ء کے انتخابات کے بعد مریم نواز کی سیاسی تربیت میں لامحالہ ان کا بھی ہاتھ تھا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے زیادہ انتہا پسندانہ رویے کی حامی نہ تھی۔2013ء کے بعد وہ سیاسی سوالات سے گریز پا رہتی تھی لیکن ایوان اقتدار میں کیا ہو رہا ہے وہ بہت کچھ جانتی تھی۔ ان کے مشورے اور رویہ اعتدال پسندانہ ہوتا تھا لیکن ڈان لیکس کے بعد جو ہوا وہ اس کو ایک سازش کے مترادف گردانتی تھی۔ ترکمستان کے دورے کے دوران انہوںنے ڈان لیکس اور اس کے حالات سے مجھے آگاہ کیا پانامہ لیکس کو وہ انداز میں دیکھتی اور سمجھتی تھی ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کرپشن کا تصور بھی نہیں کر سکتے اس حوالے سے وہ نواز شریف کے طرز حکمرانی، مالی معاملات میں احتیاط پسندی اور حتیٰ کہ وزیراعظم ہائوس میں کھانے پینے کے اخراجات خود برداشت کرنکے کی مثالیں دیتی تھیں اپنے بچوں کی اچھی تربیت میں ان کا بہت بڑا کردار تھا۔ خیرات کرنا مستحقین کی مالی مدد علاج وغیرہ جیسے معاملات میں وہ بے حد حساس تھی۔

2013ء کے بعد کمر درد گھٹنوں کے درد نے انہیں کافی پریشان کیا پاکستان میں علاج کے علاوہ انہوں نے چین، لندن، سنگاپور سے علاج کرایا لیکن بالآخر کینسر کے مرض نے انہیں آ دبوچا۔ یہ مرض انہیں اس وقت لاحق ہوا جب شریف فیملی کو ان کی از حد ضرورت تھی۔یہ خاندان بری طرح مشکلات، مصائب اور پریشانیوں میں گھر گیا۔ نواز شریف سے ان کی والہانہ محبت مثالی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ پلائو میں سے اچھی بوٹیاں چن چن کر ایک دوسرے کو پیش کرتے تھے۔بیگم کلثوم نواز کی وفات ضرور اپنے ساتھ سیاسی معجزات لائے گی۔ ہم سب مشرقی روایات کے اسیر ہیں جو کچھ اس فیملی کے ساتھ گزرا ہے ہر دردمند دل نے اسے محسوس بھی کیا ہوا غم اور دکھ کے ساتھ ایک کسک بھی موجود ہے۔ نواز شریف کی سزا تو عدالت کا فیصلہ ہے لیکن جو لوگ اس سارے معاملے کو اور انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کے دل میں اور طرح کے جذبات بھڑکیں گے۔ جو لوگ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو جھوٹ اور بہانہ قرار دیتے تھے وہ غلط ثابت ہوئے۔ اس سے مسلم لیگیوں کے دلوںمیں نواز شریف کی سچائی بڑائی اور بھی راسخ ہو جائے گی۔ نواز شریف نے ملک کے لئے اور خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے بڑی قربانی دی اور وہ اپنی چہیتی وفا شعار محبت کرنے والی بیوی کو چھوڑ کر وطن واپس آ گئے۔ مسلم لیگی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ نواز شریف بیوی کی بیماری کے علاوہ اور جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بھی ضرور سچ ہو گا۔نواز شریف مریم نواز پر جیل میں اس خبر کے بعد جو گزری ہو گی، اللہ ہی جانتا ہے۔

بیگم صاحبہ کی کون سی بات پسند آئی؟

نواز شریف سے ایک بار پوچھا گیا کہ انہیں بیگم کلثوم نواز کی کون سی خوبیاں پسند ہیں۔اس پر انہوںنے جواب دیا کہ وہ ماشاء اللہ بہت خوبیوں کی مالک ہیں ،بڑی جرا ت مند خاتوں ہیں ۔ان کی جو چھپی ہوئی خوبی میرے سامنے میرے جیل جانے کی بعد آئی کہ وہ اس قدر بہادر خاتون ہیں جو میں پہلے تصور نہیں کرتاتھا۔وہ سڑکوں پر بھی نکل گئیں اور جیل میں مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ پیچھے کیا فیصلہ گھر میں ہوچکا ہے۔وہ تو ان کے ،والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے مابین فیصلہ ہوا تھا کہ گھر میں چونکہ مرد اب کوئی نہیں ہے ۔سب یا تو جیلوں میں ہیں یا میرے والد صاحب ہیں جو عمر رسیدہ ہیں تو پھر آپس میں انہوں نے یہی طے کیا کہ کلثوم نواز باہر نکلے ۔جو کام کسی مرد کو کرنا چاہئے تھا وہ ان کے نہ ہونے سے ایک خاتون کو کرنا پڑا ۔پھر وہ باہر نکلیں اور جتنی بہادری سے انہوں نے پاکستان کے غاصب جرنیلی ٹولے کا مقابلہ کیامیرا خیال ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہے بلکہ میں کبھی یہ امید نہیں کرتاتھا بلکہ پوری قوم کو بھی اس کی امید نہیں تھی۔12گھنٹے ایک خاتون کیلئے گاڑی میں بیٹھے رہنا بذات خود ایک بہت بڑی بات ہے۔پھر اس کے بعد ڈرنا یا گھبرانا نہیں ،کہیں بھی چلے جانا کسی بھی حالت میں ،یہ تو اپنی زندگی دائو پہ لگانے والی بات تھی۔اس طرح کے جرنیلوں کا کیابھروسا ہوتاہے۔یہ تو ماضی میں بھی سیاستدانوں کو مرواتے رہے ہیں اور آئندہ بھی یہ کام کر سکتے ہیں ۔یہ سیاستدان ہی ہیں جو کبھی آئین اور قانون کے کسی ضابطہ سے باہر نہیں نکلے ۔ان جرنیلوں نے تو کبھی کسی قانون یا آئین کی پرواہ نہیں کی۔انہوں نے تو جس کو چاہا مروادیا ،جس کو چاہا پکڑلیا ،جیل میں بند کردیا ،ملک کو بدر کردیا،یہ تو اس قسم کا ذہن رکھنے والے جرنیلی ٹولے کا کام ہے ۔پاکستان کی سے ایسے بھی فوجی ہیں جو آئین اور قانون کا احترام کرتے ہیں ،وہ میرے نزدیک صحیح اور سچے فوجی ہیں ۔باقی کو تو میں فوجی بھی نہیں گردانتا۔یہ تو بدمعاشی اور غنڈہ گردی کرنے والے لوگ ہیں جو اس طرح سے آتے ہیں اور ملک و قوم کے ساتھ فوجی سربراہ بن کر یہ کام کرتے ہیں ۔بلکہ اپنے ملک کے سیاستدانوں ،لیڈروں ،وزرائے اعظم کے ساتھ یہ کھیل کھیلتے ہیں ۔ان کے خلاف تو آرٹیکل 6سے بھی جو اوپر کی چیز ہے لگنی چاہئے ۔اور اب مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ ملک پاکستان نہیں چلے گا اور نہ دنیا میں کبھی ترقی کرسکے گا بلکہ ہم پستی سے پستی کی طرف چلتے جائیں گے۔

تازہ ترین