• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ جنگ کے توسط سے میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم بارہا اس طرح کے واقعات سن چکے ہیں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی طالب علم نے خودکشی کی ہو! سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا حالات ہوتے ہوں گے کہ ایک پڑھا لکھا باشعور اپنی جان لینے پر تل جائے۔ تعلیمی اداروں نے ایسی کون سی مایوسی دی اور والدین کا کونسا ایسا دبائو ہے کہ اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ مہنگی تعلیم بھی ہے ۔والدین بڑی مشکل سے بچوں کی فیس بھرتے ہیں ان کو سو فیصد رزلٹ چاہئے۔ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا رویہ طالب علم کے ساتھ ہمدردانہ اور مشفقانہ نہیں وہ نہ تو طلبہ کی کوئی پریشانی سنتے ہیں اور نہ ہی سمجھتے ہیں اور بڑے پروفیشنل بن جاتے ہیں۔ اگر کسی بچے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہو یا اس پر کوئی اور بہت بڑی مجبوری آن پڑی ہو تو ایسے بچوں کے لئے امتحانی مراکز میں علیحدہ پرچوں کا انتظام کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ ایسا کوئی قانون بنایا جاسکتا ہے کہ امتحانی مراکز پر بحالت مجبوری دیر سے آنے والے طلبہ و طالبات کا مستقبل نہ خراب ہو اور نہ ان کے اس امتحان کو موت اور زندگی کا امتحان بنایا جائے۔ درخواست ہے کہ ایسا ماحول بنائیں کہ طالب علم اس انتہائی اقدام سے گریز کریں اور آئندہ کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔ اس لئے کہ یہ نوجوان قوم کے معمار ہیں۔
(مبشرالحق صدیقی۔جامعہ کراچی)
تازہ ترین