• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے زندگی …غفار انقلابی
پرانے میرپور شہر اور اس سےملحقہ پانچ سوسے زائد دیہات کو اجڑے اور نئے میرپور شہر کو بسے پچپن سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ منگلا ڈیم کی تعمیر سے پورا پاکستان منور ہو چکا ہے-کشمیر کے دریاوں کا اربوں کھربوں کیوسک پانی پاکستان کی زمینوں کو سیراب کر رہا ہے- منگلا ڈیم کی مچھلی پورے پاکستان کے لوگ استعمال کر رہے ہیں-مگر ڈیم بننے کے نتیجے میں لاکھوں میرپوری آج بھی اپنی بربادی پر آنسو بہا رہے ہیں۔ڈیم کی تعمیر1960میں شروع ہوئی تو میرپور کے لوگوں کو سندرسپنے دکھائے گئے- نیا میرپور شہر، نئے ٹائون، پنجاب کی زرعی زمینیں، مفت بجلی اور انگلینڈ کے پرمٹ اورنہ جانے اور کیا کچھ مگر اپنے گھربار، کھیت کھلیان، ثقافت اور اپنے آبائواجداد کا ورثہ اور بالخصوص اپنے پیاروں کی قبریں چھوڑنا آسان نہ تھا\1960میں جب ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو میرپور شہر اور اس سےملحقہ دیہات میں کھلبلی مچنا شروع ہو گئی تھی جو کہ بعد میں ڈیم مخالف تحریک میں تبدیل ہو گئی- علاقہ بینسی کے مشہور گاؤں چک ہریام میں منگلا ڈیم پراجیکٹ کے اہلکاروں نےکھڑی فصلوں کے بیچ بلڈوزروں کے ذریعہ معاوضہ ادا کئے بغیر سڑک نکالنے کی کوشش کی مگر گاؤں کے لوگوں نے مزاحمت کی اور بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہو گئے ڈیم کے خلاف یہ تحریک پورے ضلع میرپور میں پھیل گئی12 اگست 1960کوچک ہریام کے مقام پر میرپور کے لوگ قصبوں، گاؤں اور شہر سے احتجاجی جلوس نکالتے ہوئے وہاں پر تاریخی اجتماع میں پہنچےاور مطالبہ کیا کہ لوگوں کو ان کے گھروں سے اس وقت تک نہ نکالا جائے جب تک انکے لئے متبادل رہائش کا انتظام نہیں کیا جاتا-مگر حکمرانوں نے پنجاب کانسٹبلری اور فوج بلالی اور چک ہریام کو فوج کے حوالے کرتے ہوئے میرپور کی ساری قیادت کو گرفتار کرکے دولائی جیل میں بند کر دیا ان میں راجہ محمد نجیب آف چک ہریام، میرپور شہر سے غازی الہی بخش، عبدالخالق انصاری، صوفی محمد زمان، بشیر تبسم کے علاوہ راجہ محمد عباس آف کونجڑی جبوٹ اور مرزا محمد حسین اف جاتلاںکھاڑی شامل تھے۔ ان رہنماؤں پر دولائی جیل میں بغاوت کا مقدمہ چلا (بحوالا عبدالجباربٹ کی کتاب مرد خود آگاہ صفحہ 126) اور یوں منگلا ڈیم کے خلاف یہ عوامی تحریک دم توڑ گئی اور میرپور کے عوام آنسو بہاتے رہ گئے۔منگلا ڈیم بننے کے بعد نیا میرپور شہر1965کے بعد آباد ہونا شروع ہوا اور 1970 کی دہائی میں میرپور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم ڈی اے نے میرپور شہر کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور پلاٹ بندی میں ایک اہم رول ادا کیا اور لاکھوں اجڑے ہوئے لوگ آباد ہوئے مگرمتاثرین کے مسائل اور پلاٹوں کی ضروریات اتنی زیادہ تھیں کہ لوگوں کی بے چینی بڑھنے لگی اور ایم ڈی اے پر دباؤ پڑنے لگا کہ مزید سیکٹر بنائے جائیں-مگر ارباب اختیار اور ایم ڈی اے کے حکام متاثرین کی بات سننے کے لئے تیار نہ تھے-یہی وجہ تھی کہ میرپور کے عوام کا صبر کا پیمانہ جواب دے گیا-عوامی احتجاج سراٹھانے لگا۔1981کی تحریک میرپور کے شہریوں کی تحریک تھی جس نے اس وقت کے حکمراں برگیڈیئر حیات کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا- لوگوں کا مطالبہ تھا کہ ایم ڈی اے کے چیئرمین برگیڈیئر اکبر کو برطرف کیا جائے-پراپرٹی ٹیکس کو ختم کیا جائے اور میرپور کے شہریوں کو پلاٹ دئیے جائیں اور نئے سیکٹر کھولے جائیں تاکہ بےکس، بے سہارا اور مظلوم متاثرین اپنا سر چھپانے کے لئے مکان بنا سکیں۔میرپور شہر میں جلسے، جلوس اور مظاہرے شروع ہو گئے-ہرمحلے، ہر گلی اور ہر کوچے میں احتجاج شروع ہو گیا کئی مقامات پر پرتشدد مظاہرے بھی ہوئے مگر حکمراں مطالبات ماننے کی بجائے لاٹھی گولی کا سہارا لینے لگے پولیس کےتشدد اور گرفتاریوں کے نتیجے میں میرپور کے عوام اور بھی بھپرگئے۔ حالات بے قابو دیکھتے ہوئے میرپور شہر میں غیراعلانیہ کرفیو نافذ کردیا گیا پورے آزاد کشمیر کی پولیس بلا کر میرپور کے شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ میرپور کی ساری قیادت بشمول چوہدری نور حسین، چوہدری خادم حسین، عبدالخالق انصاری، چاچا علی محمد، چوہدری عبدالمجید، ریاض انقلابی، عظیم دت، اعظم خان، خواجہ جاوید اور پروفیسر نذیر تبسم کے علاوہ سینکڑوں لیڈروں، سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں کو گرفتار کر کے میرپور اور مظفرآباد جیل میں ڈال دیا گیا اور کچھ کو آٹھ مقام پولیس سٹیشن پہنچا دیا گیا۔ کرفیو، پولیس تشدد اوراندھادھند گرفتار یوں کے باوجود میرپور کی یہ عوامی تحریک رک نہ سکی- پاکستان کے فوجی حکمراں جنرل ضیاالحق کی مداخلت پر آزاد کشمیر کی حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے-ایم ڈی اے کے چیئرمین برگیڈئیر اکبر کو گھر بھیج دیاگیا، پراپرٹی ٹیکس ختم کردیا گیا اور میرپور کے شہریوں کے پلاٹ بندی کے معاملات کو سلجھانے کی لئے ایم ڈی اے میں اصلاحات لانے کا اعلان کیا گیا۔برگیڈیئر اکبر کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ اسنے شہریوں کی پلاٹ کی ضروریات کا ادراک نہ کیا اور مزید پلاٹ بندی کی کوئی منصوبہ بندی نہ کی مگر وہ دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ میرپور شہر کے ماسٹر پلان کا رکھوالا تھا۔
1981 کی عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد میرپور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے کئی ایک نئے سیکٹر کھولے اور لوگوں کی رہائشی ضروریات پوری کیں مگر پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں سیاسی مداخلت اس قدر بڑھ گئی کہ آنے والے ہر وزیر اعظم اور صدر نے پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں کھلی مداخلت شروع کر دی، یہاں تک کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کی اہم شخصیات اور بیوروکریٹس نے استحقاق نہ ہو نے کے باوجود بہتی گنگا میں خوب اپنے ہاتھ دھوئے اور میرپور کے ماسٹر پلان کا ستیاناس کر دیا، اور کوئی پارک، اوپن سپیس، کوئی سیوریج لائن یا کوئی سڑک نہ چھوڑی جس کو الاٹ نہ کیا گیا ہو یا تجاوز کر کے ناجائز الاٹمنٹ نہ کی ہو۔اب گزشتہ کچھ ہفتوں سے سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کی آڑ میں آزاد کشمیر کی بیوروکریسی راجہ فاروق حیدر کو رام کرتے ہوئے میرپور کا ماسٹر پلان بحال کرنے کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 523پلاٹ منسوخ کرتے ہوئے ان پر تعمیر کی گئی عمارات پر بلڈوزر چلانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں مگر یہ 523نہیں بلکہ 2393پلاٹ ہیں جو کہ ماسٹر پلان کےبغیر الاٹ ہوئے ہیں اور متاثرین کی دوسری اور تیسری نسل کو الاٹ ہوئے ہیں اور جن پر پختہ تعمیرات ہوئی ہیںاب ان عمارات کو گرانے کی کارروائی محض میرپور میں افراتفری پھیلانے اور آزاد کشمیر کی منتخب حکومت کو گرانے کی سازش لگتی ہے۔1981کے بعد دس ہزار سے زائد ایسے پلاٹ الاٹ ہوئے جو ماسٹر پلان کے خلاف الاٹ ہوئے( بحوالہ بوستان انکوائری کمیشن رپورٹ)، اس ماسٹر پلان کو بحال کرنا دیوانے کا خواب ہے-راجہ فاروق حیدر اور چیف جسٹس آزاد کشمیر سپریم کورٹ کو اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینا چاہیے اور میرپور کے لوگوں کے بہتے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے بنی گالہ کے 65پلاٹوں کی طرح میرپور کے 523پلاٹوں کو ریگولرائز کر لینا چائیے کیوں کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان، بنی گالہ کے 65الاٹی اور میرپور کے523 الاٹی قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ میرپور کی کشیدہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ میرپور کے مظلوم اور بےکس عوام کی دادرسی کی جاہے ایسا نہ ہو کہ 1960 اور 1981کی طرح 2018میں بھی وہی تاریخ دھرائی جائےاورمیرپور کے شہریوں کے بہتے آنسوؤں کا سیلاب بیوروکریسی کے استحصالی افسروں کو بہا کر لے جائے-
ظلم پھر ظلم ہےبڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا توجم جائے گا۔
تازہ ترین