کیا ایسا چل پائے گا؟

November 08, 2021

ویسے کتنے ’’ظلم‘‘کی بات ہے کہ حکومت وقت نے پنجاب میں ایسا چیف سیکرٹری لگایا ہے جس نے بے چارے غریب افسران کی روٹی روزی ہی بند کردی ہے۔ ہر چیز قانون کے مطابق ہی ہوگی اور کوئی کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی، ’’بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی؟‘‘ یہ افسران بے چارے کیا کرتے تھے؟ ایک اسسٹنٹ کمشنر کے تبادلے وتعیناتی کے چند ٹکے ہی تو لیتے تھے جس سے ان کے بچوں کےپیٹ بھرتے تھے یا شاید کچھ کچن کی اشیائے ضروریہ آ جاتی ہوں گی۔ ان افسران پر کتنا ظلم کیا گیا وہی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی بھی ایسا لگایا ہے کہ ہر طرف چیخ و پکار ہے۔ ہر طرف ڈپریشن کا سماں ہے۔ آخر افسر اپنے بلکتے بچے لے کر کہاں جائیں جن کی بھوک ان سے برداشت نہیں ہو پا رہی۔ یہ بھی تو دیکھیں کہ عوام نے بھوک کی وجہ سے خودکشیاں کی ہیں، کہیں یہ نہ ہو کہ بے چارے غم سے نڈھال اور ایماندار افسروں کے ڈسے ہوئے ان افسروں کے بچوں کو اگر کھانے کو نہ ملا تو وہ بھی کہیں خود کشیاں نہ کر بیٹھیں۔ ایک بات تو اب واضح ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر اب میرٹ پر تعینات کئے جا رہے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر بھی اب حیران ہیں کہ انہیں بغیر پیسے لئے ہی تعینات کیا جار ہا ہے۔ وہ بھی دعائیں دیتے ہوں گے لیکن دوسری طرف بلکتے بچوں کےافسر والدین چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی کو جو بددعائیں دیتے ہوں گے وہ کہیں دعائوں کے وزن سے بھاری نہ ہو جائیں۔ بہرحال چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران افضل اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری سید علی مرتضیٰ شاہ کسی نہ کسی حوالے سے تو مبارکباد کے مستحق اور لائق تحسین ہیں کیونکہ اس معاشرے میں کسی کا ’’روٹی پانی‘‘ بند کرنابڑی جرأت اور دلیری کی با ت ہے۔ یہ امر یقیناً نہ صرف سول سروسز آف پاکستان اور سسٹم میں انحطاط پذیری کو روکنے کے لئے قابل ستائش ہے بلکہ ایک بہتری اور امید کی کرن ہے جس سے بہت سارے سول سرونٹس کو فی الحال تو شاید تکلیف محسوس ہو رہی ہو لیکن آگے چلکر اسکے سسٹم اورگورننس پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ حالیہ سینٹرل سلیکشن بورڈ میں گریڈ 20 سے 21 میں ترقی پانے والے چند اور افسران کے نام وزیر اعظم آفس کوبھجوا دیئے گئے ہیں جس میں پنجاب سے 22ویں کامن کے علی طاہر جو سابق سیکرٹری ایکسائز اور زراعت رہے ہیں،22 ویں کامن کی ہی صوبائی سیکرٹری لٹریسی سمیرا صمد، 26 ویں کامن کے سیکرٹری خزانہ پنجاب افتخار سہو اور 24ویں کامن کے سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو کیپٹن (ر) اسد اللہ کے نام شامل ہیں۔ اب ذرا ایک نظر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی طرف سے متعارف کروائے جانے والے سی ایس ایس امتحان سے قبل پری سیکریننگ ٹیسٹ پر ڈالتے ہیں۔ 2022 کے سی ایس ایس امتحان سے قبل ایک (MANDATORY) کوالیفائنگ ٹیسٹ تجویز کیا گیا ہے جو سی ایس ایس کا امتحان دینے سےقبل ایک تحریری امتحان ہوگا۔ اس میں (MULTIPLE CHOICE QUESTIONS) (MCQ's) 200سوالات ہونگے۔ ایک سوال کا ایک نمبر ہوگا اور حل کرنے کا وقت بھی 200 منٹ (3گھنٹے 20) ہوگا۔ یعنی ہر سوال کے لئے ایک منٹ ہوگا۔ اس ٹیسٹ کو کوالیفائی کرنے کے لئے 33 فیصد (200 میں سے 66) نمبر لینا ضروری ہوں گے جبکہ امیدواروں کو جوابات کی شیٹس کی کاربن کاپی لے جانے کی اجازت ہوگی۔ اس ٹیسٹ کے لئے اہلیت، عمر، تعلیم اور ڈومیسائل کوجانچنے کی آخری تاریخ 31 دسمبر 2021 ہوگی۔ اس ابتدائی ٹیسٹ میں حاصل کئے گئے نمبر اسی سال کے لئے تصور ہوں گے اور ابتدائی ٹیسٹ کے نمبر سی ایس ایس کے باقاعدہ امتحان میں حاصل کئے گئے نمبروں میں شمار نہیں ہونگے۔ سی ایس ایس کے اس پری کوالیفائنگ ٹیسٹ کیلئے تعلیمی قابلیت بی اے سیکنڈ ڈویژن اور 31 دسمبر 2021 تک عمر کی حد 21 سے 31 سال ہونی چاہئے جبکہ سی ایس ایس رولز 2019 کے تحت عمر میں 2 سال کی رعایت بھی مل سکتی ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی طرف سے اس پری کوالیفائنگ ٹیسٹ کا مقصد دراصل سی ایس ایسی کے امتحان میں امیدواروں کی تعداد کم کرنا اور بڑے لاجسٹک NIGHTMAREسے بچنا ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے ایف پی ایس سی BASIC INTELLECT کو دیکھے گی۔ ایف پی ایس سی کے لئے ایک بڑی سر درد یہ تھی کہ بہت سے فارغ لوگ بھی امتحان دیتے تھے۔ سی ایس ایس کا تحریری امتحان دینے والے 20 یا 30 ہزار امیدواروں میں سے صرف 3 سے 4 ہزار لوگ ہی پاس ہوتے تھے لیکن اس پر بے شمار اخراجات آتے تھے کیونکہ 30 ہزار امیدواروں کا امتحان لینا اور پھر ان کے حل شدہ پرچوں کی چیکنگ کے لئے ادائیگیاں ایک بڑا خرچہ تھا۔ اب اس پری کوالیفائنگ ٹیسٹ سے کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑے گا۔ سینئر سول سرونٹس کا یہ خیال ہے کہ اس میں پاس ہونے کے لئے 33 فیصد نمبر رکھے گئے ہیںجو کہ کم ہیں کیونکہ سی ایس ایس کے تحریری امتحان میں پاس ہونے کے لئے 50 فیصد نمبر ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ایف پی ایس سی نے ڈرتے ڈرتے یہ پالیسی بنائی ہے کیونکہ اگر 33 فیصد سے زیادہ رکھتے تو پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانے کے ماہر لوگ اس کوبھی ایف پی ایس سی اور بیورو کریسی کی کوئی چال قرار دے دیتے۔ اس پری کوالیفائنگ ٹیسٹ میں MCQ's ہوئے تو ANALYSIS نہیں ہوسکے گا جو پھر رٹہ ہی ہوگا۔ سی ایس ایس سوالوں کے جوابات میں تجزیہ کرنے کا امتحان ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اگر ANALYSISکا پورشن بھی MCQ's کے ساتھ ڈالا جائے تو بہتر رہے گا 200 نمبر کے اس پر کوالیفائنگ ٹیسٹ میں 50 نمبر انالسس کے بھی ہونے چاہئیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)