رسول اکرمﷺ کی قائم کردہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘

December 03, 2021

مولانا عبدالوہاب شیرازی

آج ایک عام مسلمان کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ ریاستِ مدینہ کیا ہے؟ اتنی بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ریاستِ مدینہ سے مراد حضورﷺ کی قائم کردہ وہ حکومت تھی جو مدینہ میں قائم ہوئی اور پھر پھیلتی چلی گئی، جسے خلافتِ راشدہ بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس ریاستِ مدینہ میں کیا کیا خوبیاں تھیں، اسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ آپ اکثر سیرت کے جلسوں اور مختلف بیانات میں قرآن پاک کی یہ آیتِ کریمہ سنتے ہوں گے:’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔‘‘(ترجمہ)’’تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:۲۱)جس طرح رسول اللہﷺ کی حیات پاک تمام انسانوں کے لیے روشن نمونہ ہے، بالکل اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی ریاست تمام دنیا کی ریاستوں کے لیے مثالی نمونہ ہے۔

حضوراکرم ﷺکو جب نبوت ملی تو آپ ﷺنے سب سے پہلا کام لوگوں کے عقائد ونظریات کی درستی کا کیا، اور عرب کے اس جاہل معاشرے میں نظریۂ توحید کی داغ بیل ڈالی۔ عرب کے اس معاشرے میں لوگوں کے مختلف عقائد تھے، کوئی ایک خدا مانتا تھا تو کوئی تین، کوئی لاکھوں خدا مانتا تھا تو کوئی بالکل بھی نہیں۔ لوگ اپنا خدا اپنے ہاتھوں سے بناتے اور پھر اس کے سامنے جھک جاتے۔ درباروں، مندروں اور آستانوں پر چڑھاوے دئیے جاتے جس سے انہیں ہر گناہ کرنے کی آزادی مل جاتی، لیکن ریاستِ مدینہ کے بانی نے سب سے پہلے عقیدہ کا نعرہ بلند کیا، کیونکہ عقیدہ ہی وہ پہلا پتھر ہے جو درست ہو جائے تو زندگی کا دھارا بدل جاتا ہے۔

ایک شخص نہ کسی خدا کو مانتا ہو اور نہ کسی حساب کتاب کو، تو پھر وہ اپنے پیٹ کاپجاری ہوتا ہے، اس کی ساری تگ و دو، ہر محنت کوشش کامحور اپنا پیٹ، اپنے بچے، اور اپنا گھر ہوتا ہے، نہ اُسے حلال و حرام کی تمیز ہوگی اور نہ صحیح اور غلط کی۔ لیکن اگر اس کا عقیدہ بدل دیا جائے، تو صرف عقیدے کے بدلنے سے اس کی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی آجائے گی کہ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سوچے گا کہ آیا یہ درست ہے یا غلط؟! حرام ہے یا حلال؟! نہ اس کی نگرانی کی ضرورت ہوگی اور نہ ڈنڈے کی۔ لہٰذا آج بھی اگر کوئی ریاستِ مدینہ قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے ریاست کے باسیوں کے عقائد اور نظریات کو درست کرنے کی فکر کرنی ہوگی، اور لوگوں کو ایک اللہ کا بندہ اور آخرت میں حساب وکتاب اور جواب دہ ہونے کا احساس دلانا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ اگر ہم اُنہیں حکمرانی عطا کریں تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور نیکیوں کا حکم کریں اور برائیوں سے منع کریں۔(سورۃالحج:۴۱) اس ایک آیتِ کریمہ میں حکمرانی کرنے کا پورا طریقہ بتادیا گیا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاستِ مدینہ میں سب سے پہلا کام یہی کیا گیا۔ ریاست کا آغاز ہی مسجدِ نبوی کی تعمیر سے ہوا، جس سے پتا چلتا ہے کہ ریاستِ مدینہ کی پہلی ترجیح مساجد کی تعمیر تھی، نہ کہ مساجد ڈھانا۔ پھر صرف تعمیر پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ مسجد کو اس کا حقیقی مقام بھی دیا گیا۔

اُمورِ مملکت کے اہم فیصلے مسجد میں ہوا کرتے تھے، ریاستِ مدینہ کی مقننہ مسجد میں ہی تھی، ریاستِ مدینہ کا مرکز بھی مسجد تھا، ریاستِ مدینہ کی اعلیٰ عدالت بھی مسجد میں ہی تھی۔ غرض ریاستِ مدینہ کے تمام اُمور مسجد میں طے ہوتے تھے، ریاستِ مدینہ کے لشکر فوجی ہوں یا سفارتی سب مسجد سے روانہ ہوتے اور خاص طور پر خارجہ اُمور اور باقی ممالک کے سفارتی وفود سے مذاکرات اور ملاقاتیں مسجد میں ہی ہوتی تھیں۔ ریاستِ مدینہ نے اپنی نیشنل یونیورسٹی کا درجہ بھی مسجد کو ہی دیا ہوا تھا۔

سورۂ حج کی آیت کریمہ کی روشنی میں ریاستِ مدینہ میں نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ اس نہج پر قائم کیا گیاتھا کہ کسی کو اس بات کی جرأت و ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ نماز یا زکوۃ چھوڑ سکے، چنانچہ عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: حضور ﷺ کے زمانے میں کوئی اس بات کی ہمت نہیں کرسکتا تھا کہ وہ نماز اپنے گھر میں پڑھے، تمام لوگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ جو بیمار ہوتا ، اسے بھی دو آدمیوں کے سہارے لاکر مسجد کی صف میں بٹھا دیا جاتا تھا۔

دوسری طرف ایک غلط فہمی کی وجہ سے ایک قبیلے کے بارے میں پتا چلا کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے تو اس کے خلاف لشکر کشی کی تیاری شروع ہوچکی تھی، جبکہ حضرت صدیق اکبرؓ کے دور میں ریاستِ مدینہ نے مانعینِ زکوٰۃ کے بارے جو پالیسی اختیار کی وہ سب کے سامنے ہے۔

قرآن حکیم کی سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے ریاستِ مدینہ کے بانی، شاہِ عرب، ہادیِ اعظم، سرورِ کونین، نبی آخرالزماںﷺ کا یہ وصف بیان کیا ہے: ’’اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔‘‘(سورۃ الاعراف:۱۵۷)

عرب کے اس معاشرے میں جو جاہلیت کے بوجھوں تلے دبا ہوا تھا اور طرح طرح کی خود ساختہ بندشوں میں جکڑا ہوا تھا، ریاستِ مدینہ نے ان تمام بوجھوں کو اتارا، اور تمام بندشوں کو کھول کر لوگوں کو آزاد کیا۔ طرح طرح کی من گھڑت رسومات اور رواج، جن کے نہ سر تھے نہ پاؤں، ریاستِ مدینہ نے سب کو ختم کرکے لوگوں کے بوجھ ہلکے کیے۔ لوگوں کو بتایا کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام؟ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ ان غلط رسومات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اصل اور صحیح رسومات کا اجرا ء بھی کیا۔

رسومات خوشی کے مواقع کی ہوں یا غمی کے مواقع کی، ان کا صحیح طریقہ بتایا، اور بدعات و خرافات کا مکمل صفایا کیا، لہٰذا آج بھی اگر کوئی ریاستِ مدینہ کی طرز پر ریاست بنانا چاہے تو اسے لوگوں کو ان بوجھوں سے ہلکا اور ان بندشوں سے آزاد کرنا ہوگا جن میں لوگ جکڑے جا چکے ہیں اور نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔ جہیز، مہندی، اور لڑکی کے گھر کھانے کی رسومات وہ ناسور ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اسی طرح فوتگی اور اس کے بعد کی رسومات کا معاملہ ہے ، گویا شادی کی رسومات نے لوگوں کی دنیا اور فوتگی کی رسومات نے لوگوں کی آخرت خراب کرکے رکھ دی ہے۔

ریاستِ مدینہ نے اپنے معاشرے کو جدید خطوط پر استوار کیا، اور جاہلیت کا وہ سارا گند صاف کیا جس نے عرب معاشرے کو گھیرا ہوا تھا۔ ریاستِ مدینہ نے عدل و قسط پر مبنی معاشرہ کھڑا کیا، جس میں قانونی مساوات کو رائج کیا۔ قانون سب کے لیے ایک تھا، امیر غریب کا کوئی فرق نہیں تھا۔

قبیلہ بنو مخزوم کی فاطمہ نامی عورت جب چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی اور اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا تو اس کے قبیلے والے ہر قسم کی سفارشیں، رشوتیں دینے کے لیے تیار ہو گئے کہ کسی طرح اس بااثرعورت کو قانون کے ہاتھوں سے چھڑا دیا جائے، لیکن حضورﷺ نے فرمایا: اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ حضرت علیؓ عدالت کے طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہوئے اور حضرت عمرؓ نے مصر کے گورنر کے بیٹے کو سرعام کوڑے مارے اور یہ ثابت کیا کہ ریاستِ مدینہ میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی ہو اور قانون میں امیر غریب، چھوٹے بڑے طبقے کا فرق مٹا دیا جائے۔

ریاستِ مدینہ نے معاشرے کی سطح پر دوسرا بڑا کارنامہ فحاشی اور عریانی کو مٹانے کے حوالے سے کیا اور لوگوں میں پردے کا نظام رائج کیا۔ محرم اور غیر محرم کا فرق لوگوں کے ذہن میں بٹھایا۔

ریاستِ مدینہ نے معاشرے کی سطح پر تیسرا بڑا کارنامہ خواتین کے حقوق بالخصوص شادی میں زبردستی، وراثت سے محروم رکھنا، یتیم کا مال ہڑپ کرنا اور عورتوں کے حقِ ملکیت کو ثابت کرنے کے حوالے سے سرانجام دیا اور لوگوں کو بتایا: عورت مال نہیں ،انسان ہے، اور حقِ ملکیت بھی رکھتی ہے۔ کوئی کسی عورت سے زبردستی شادی نہیں کرسکتا، کوئی عورت کے حقِ وراثت کو دبا نہیں سکتا۔ مردوعورت دونوں کے حقوق ہیں، البتہ دائرہ کار علیحدہ علیحدہ ہے۔

ایک وقت وہ تھا جب لوگوں نے بھوک کی شدت کم کرنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھے ہوتے تھے، اور پھر چند سال بعد ایسا دور بھی آیا کہ ریاستِ مدینہ میں زکوٰۃ دینے والے تو تھے، لیکن زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔ یہ سب کچھ ریاستِ مدینہ کی ان شاندار پالیسیوں کے نتیجے میں ممکن ہوا جو اس ریاست نے اختیار کیں۔ ان میں سب سے اہم چیز سود پر مکمل پابندی تھی، جس کی وجہ سے غریب کو سر اُٹھانے کا موقع ملا اور امیر کے منہ میں لگام ڈال دی گئی۔ یہی وہ بنیادی پتھر تھا جسے اُٹھانے کے ساتھ ہی ریاست کی معیشت ترقی کرنا شروع ہوئی۔

ریاستِ مدینہ نے ارتکازِ دولت پر بھی پابندی لگا دی اور ایسی ایسی پالیسیاں جاری کیں کہ دولت چند ہاتھوں تک سمٹ کر نہ رہ جائے، بلکہ دولت ہر وقت حرکت میں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سود حرام اور زکوٰۃ فرض قرار دی گئی، یعنی ناجائز طریقے سے کوئی دولت اکٹھی نہیں کرسکتا، اور جائز طریقے سے اکٹھی کی گئی دولت بھی ایک حد کے بعد ایک خاص مقدارِ زکوۃ کی صورت لٹا دی جائے گی۔

اس کے علاوہ ریاستِ مدینہ نے امیروں پر زکوٰۃ تو فرض کی، لیکن غریبوں پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔ آج ہماری ریاست امیروں کو تو طرح طرح کی چھوٹ دیتی ہے، لیکن غریب سے ایک سوئی سے لے کر کھانے پینے کی بنیادی چیزوں یہاں تک کہ بچے کی تعلیم کے لیے خریدے گئے بال پن اور بسترِ مرگ پر لیٹے بیمار کی گولی تک ہر چیز پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔ کئی چیزیں تو ایسی ہیں کہ جتنی ان کی اصل قیمت ہے، اس کے قریب قریب ہی اس پر ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی بھی دل جمعی، خلوص، اور محنت سے کام نہیں کرتا بلکہ لوٹ مار، دھوکا، فراڈ، اور غلط ذرائع سے دولت جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ریاستِ مدینہ شہریوں کو لوٹنے کے بجائے ان کی کفالت کرتی تھی۔ ریاستِ مدینہ شہریوں کی خوراک، صحت اور تعلیم کا خاص خیال رکھتی تھی۔

اس بے مثال ریاست کی سیاست کے دو بنیادی نکتے تھے: ایک یہ کہ مقتدرِ اعلیٰ اورحاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے۔ دوم یہ کہ دعوتِ حق کا فروغ کیا جانا چاہیے، چنانچہ ریاستِ مدینہ کی ساری سیاست اسی نکتے کے گرد گھومتی تھی۔ کوئی لشکر روانہ کرنا ہو یا مذاکرات، خارجہ پالیسی ہو یا عسکری پالیسی، ان ہی دو نکتوں کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی تھی، چنانچہ ایک وقت وہ تھا کہ ریاستِ مدینہ کے بانی ﷺکو غار میں پناہ لینا پڑی، اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، لیکن چند سال بعد وہ وقت آیا کہ آپﷺ نے اس وقت کی سپر پاور روم و ایران کے بادشاہوں کو اسلام میں داخل ہونے کے خطوط لکھے اور دعوتِ حق کے فروغ کو عرب سے نکل کر عجم میں پھیلانا شروع کردیا۔ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو بھی اور ہم سب کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر پاکستان کی ریاست کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین ثم آمین)