چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، ایک امکانی تجزیہ!

May 18, 2016

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کا ’’تاریخی بحران‘‘ دور ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ ملتان ، شاید اسلام آباد میں بھی انہوں نے کہا:۔’’لگتا ہے پارٹی اپنے بھنور سے نکل جائے گی، شہباز تاثیر اور اب علی حیدر گیلانی کی بازیابی ہمارے لئے مبارک شروعات ہیں‘‘، پشاور کےضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار کا، صرف ہزار گیارہ سو ووٹوں سے پیچھے رہ جانا بھی لوگوں نے پارٹی کے وجود کی اجتماعی سرگوشی قراردیا ہے، چیئرمین نے اس شکست کو’’نتیجہ بدل دیا گیا، کے شک یا یقین کی صورت میں بھی بیان کیا، اس تنازع سے قطع نظر بڑی مدت کے بعد شکست خوردہ نفسیات کے اس دورانیے میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد نے چیئرمین کے احساس کی تصدیق کی تھی، یعنی ’’لگتا ہے پارٹی اپنے بھنور سے نکل جائے گی‘‘۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے، آصف علی زرداری اور بی بی بینظیر شہید کے فرزند ارجمند ہیں۔ انہوں نے اپنے ننھیال کی روایت کے عین مطابق نوعمری میں قومی قیادت کی جدوجہد کا علم اٹھایا اور عالمی برادری میں اپنے ملک کی کامیابیوں کے جہان تازہ کی بنیادیں رکھنا شروع کردی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک لیجنڈ ہیں جن کے قد کاٹھ نے تاریخ کے سفر میں آج بھی اپنی سالاری کا جھنڈا گاڑ رکھا ہے، بی بی شہید اس لیجنڈ کی سیاسی ،فکری اور علمی وارثت کی پاسبان ، محافظ ، نگران اور ترجمان ثابت ہوئیں۔ انہوں نے آخری سانس تک، اپنا سیاسی سفر’’جیوے بھٹو سے شروع کیا اور جیوے بھٹو پر ہی ختم کیا‘‘۔ پاکستان زندہ باد، کا نعرہ اس عہد و پیمان کے مابین روشنی کا وہ مرکز تھا جہاں سے بی بی شہید کے ’’بھٹو ازم‘‘ پر یقین و عزم کو جلا اور قوت ملتی ، یہاں پر جڑا ایک اور فیکٹر ’’سابق صدر آصف علی زرداری‘‘ کی شخصیت ہے، سیاسی وراثت کے تسلسل میں ان کا تذکرہ اور وجود زبان زد عام تو رہتا ہے، پھر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسےآصف علی زرداری کو ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے بعد ایک چھوٹی سی ڈیش(۔) ڈال کر شامل کیا جارہا ہے!
آصف علی زرداری اس نظریاتی اور سیاسی رائے کے تسلسل میں ایک غیر معمولی شخصیت ہیں، وہ سیاسی مفکر کہے جاسکتے ہیں، ان کی سیاسی فکر کا تخلیق کارانہ پیرائیہ اظہار اپنی بلوغت اور ندرت میں آج کے کسی بھی سیاستدان یا دانشور کو ایک قدم پیچھے رہنے پر مجبور کرتا ہے، ’’نان اسٹیٹ ایکٹر‘‘ کی ایک سیاسی اصطلاح یا استعارہ ہی آصف علی زرداری کے استثنیٰ کی ذہنی ارتقاء کا زندہ ثبوت ہے۔ اس ایک اصطلاح میں انہوں نے پاکستان کی سیاسی، جغرافیائی، سماجی اور اقتصادی بربادی اور ابتری کی خوںفشاں داستان بیان کردی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے نظریاتی اور سیاسی ورثے کے امانت دار یہ ناقابل تسخیر مفکر سیاستدان ضیاء الحق سے لے کر بے چہرہ اداروں اور افراد کے ظلم وجور ، بے حد و حساب دروغ گوئی اور کردار کشی کی برہنہ مہمات کا واحد مصرف رہا، پاکستانی میڈیا کے بڑے بڑے سرخیلوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے ’’صحافتی تھڑوں‘‘ نے اس کارگناہ میں، جہاں تک ممکن ہوسکا اپنا حصہ ڈالا تاآنکہ پاکستانی عوام میں انہیں’’مالی حرص و ہوس‘‘کے Perception (تاثر)کی شکل میں متشکل کردیا گیا۔ پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصہ اس سے متاثر بھی ہوا۔
ایوان صدر میں بطور صدر پاکستان، گزرے پانچ برسوں میں ان کی صبحیں ،دوپہریں، شامیں، ان کے دن اور راتیں دماغی فتنہ گراں کے پھینکے، اچھالے اور ڈھالے گئے سرخ انگاروں کی لپیٹ میں رہیں۔ آصف علی زرداری،1825ایام کے اس صدارتی عہد میں دشمنی کے آسمانوں تک بھڑکتی، گونجتی اور چیختی اس آگ کو درگزر اور مفاہمت کی اس نیک طنیت پھوار سے ٹھنڈا کرتے اور بجھاتے رہے ، جس درگزر اور مفاہمت کے مقام و مرتبہ بڑے نصیب ’’والوں کو نصیب‘‘ ہوتا ہے۔ قلم و برش کے مہا کلاکاروں، جبہ و دستار کے بزعم خود علمبرداروں اور عدل و انصاف کے میناروں نے آصف علی زرداری کی ہر سانس کو امتحان کی سولی پر لٹکایا اور اس کی ہر سانس ہی اس جان لیوا سولی پر سرفراز ہوئی، چنانچہ دشمنان جاں آگ بھڑکاتے بھڑکاتے ہانپ گئے ان کے اپنے سانسوںکی ڈوریاں ابتر اور منتشر مدو جزر کی لہروں کے زیرو بم میں اتھل پتھل ہوتی چلی گئیں، وہ ان1825صدارتی ایام میں’’صدر پاکستان آصف علی زرداری‘‘ پر ،بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ایک رتی بھر مالی مفاد، بددیانتی ا ور سودے بازی کا ’’الزام‘‘ لگانے کی جرأت تھی نہ کرسکے، وہ لمحہ شاید آزمائش و ابتلا کی ان تمام دالخرش گھاٹیوں کے سب سے کاری وارکا روپ تھا جب پارٹی کے اندر سے آصف علی زرداری کے بارے میں ، ان کے مخالفین اور حاسدین کے اس نفس پرستانہ تراشیدہ Perceptionکو پیپلز پارٹی کے بعض کم نگاہ اور سیاسی دیانت میںجھولہی جھول کےماروں نے ’’عوامی بحران‘‘ کی ناگزیر سچائی کے طور پر مجسم کرنا چاہا، پیپلز پارٹی کی اندرونی کمین گاہوں کے یہ تھڑدلے تیر انداز کامیاب نہ ہوسکے، انہیں تو غالباً اس قانون فطرت کا علم ہی نہیں تھا شعور تو بعد کی بات ہے، وہی کہ’’عقل سلیم اپنی نشانی معدوم نہیں کرتی، اپنے باطن میں وہ اصل سچ کی از خود نگہبان بن جاتی ہے‘‘ چنانچہ یہاں بھی آصف علی زرداری کو اسی فیض رسانی نے فیض یاب کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو مرکزی قیادت کی ساحرانہ کشش اور بصیرت سے محروم کرنے کی گناہگارانہ منصوبوں سازیوں سے لے کر باپ بیٹے کے اختلافات تک کی سخن طرازیوں کی کہانیاں اپنی ناتمامی کے مردہ اختتام کو پہنچیں۔ آصف علی زرداری پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنمائی و سیادت کے لئے اسی نظریاتی وراثت کے ایک قدرتی عنصر کے طور پر بدستور موجود ہیں۔ عوام ان کے افکار و فلسفۂ سیاست کا، معنویت سے بھرپور ابلاغ سنتے، محسوس اور قبول کرتے ہیں۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری کے اس نظریاتی اور سیاسی تسلسل کی طلوع ہوتی ہوئی سحر ہے۔ بھٹو صاحب اور بی بی شہید کے حوالے سے ماضی اور آصف علی زرداری کے حوالے سے حال اور مستقبل، تینوں بلاول بھٹو زرداری کی تربیت گاہ کی حیثیت سے اپنے کردار ادا کررہے ،اور ادا کرتے رہیں گے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات، ہزار برس تک جنگ لڑنے کا رجزیہ اعلان، مسئلہ کشمیر، مودی کا جو یار ہے، یہ سب ماضی اور حال کا آمیزہ ہیں، ان کا جو اطلاق اپنے اپنے وقت کے تناظر ہی میں ممکن ہے۔ بلاول کو وقت کے اس تناظر کی امتحان گاہ اور تجربہ گاہ سے گزرتے رہنا ہے، اس لئے جو ہوا ، جس وقت ہوا، اس کا صحیح انطبات ہی سیاسی انصاف کے ترازو میں تل سکے گا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات اور ہزار برس تک جنگ لڑنے کے اعلانات سے لے کر سقوط مشرقی پاکستان تک، بلاول بھٹو زرداری اس ساری تاریخ کو آپ کے آئینہ نظر سے نہیں اپنی فکری استعداد اور نظریاتی پختگی کے مختلف مراحل میں دیکھ پائے گا، چنانچہ فیصلے کرنے کے بجائے اس نئے بھٹو کے ظہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ابھرتی ہوئی صدائے بازگشت، کی صداقت کا اعتراف کریں، جب آج پاکستان کے غریب عوام نے کسان، کاشتکار، ہاری، مزدور، عورتیں، اقلیتی، لبرل عالمی برادری اور بوسیدہ، پژمردہ، متشدد ، رجعت پسند، مذہبی جنونیت کی قیدی پاکستانی قومیت کے سر پر ارتقائی زندگی کے نئے افق نمودار ہورہے ہیں۔ پھانسی کا جھولتا رسہ، لیاقت باغ میں چلائی جانے والی گولی ، شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے لاشے جیلوں اور عقوبت خانوں میں آصف علی زرداری کی اذیتوں میں سلگتی زندگی بلاول بھٹو زرداری کے لئے وہ مشعل ہے جس کے سلسلے میں آپ کا ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار کو سرفراز کرنے کے قوی عمل اور بی بی شہید کی شہادت میں تفریق یا تقسیم کی راہیں نکال کر بلاول کو دونوں بھٹو ز میں سے ایک کے انتخاب کا از خود مشورہ یا نصیحت آپ کے کسی ذہنی بہکائو یا تشنج کا نتیجہ تو ہوسکتا ہے، بلاول بھٹو زرداری کے منصب کا تقاضا نہیں۔ وہ اپنے نظریاتی اور سیاسی ورثے کے حصے بخرے کرکے نہیں اسے پورے فکری حجم کے طور پر لے کر چلنے کا شعور رکھتا ہے۔ بلاول میں اس شعور کی بلندی نے ہی پاکستانی عوام میں ایک بار پھر ایک باعزت و خود مختار زندگی کی شمع امید روشن کردی ہے۔