سندھ کا مقدمہ

January 25, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہ بھی 1988کے انتخابات کے لئے ایک اہتمام تھا کہ آئی جے آئی کے نامی گرامی اراکین میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ تمام تر اہتمام کے باوجود جو نتائج آئے وہ بیان کر چکا ہوں۔ پیپلز پارٹی کی جیت نے اہتمام کرنے والوں کو پریشان کرکے رکھ دیا تھا، حیرت کا مقام تھا کہ پیر پگارو پیپلز پارٹی کے ایک عام ورکر پرویز علی شاہ کے ہاتھوں 55ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست کھا گئے۔

سمجھوتے کے تحت ملنے والے اقتدار میں بے نظیر بھٹو کو ڈھنگ کی وزارتیں ضیا کی باقیات کو دینا پڑیں۔اس کے باوجود بے نظیر بھٹو کی حکومت کو اٹھارہ بیس ماہ کے بعد ختم کر دیا گیا۔اس خاتمے سے پہلے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہو چکی تھی۔

1990 ءکے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے اہتمام 1988ءسے بھی کہیں زیادہ کیا، پنجاب اور سندھ کے نگران وزرائے اعلیٰ پیپلز پارٹی کے سخت مخالفین میں سے تھے، پنجاب میں غلام حیدر وائیں اور سندھ میں جام صادق علی کو انتخابات کروانے کےلیے وزیر اعلیٰ بنایا گیا جبکہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیر اعظم بنایا گیا۔یہ سب اہتمام اس لیے تھا کہ پیپلز پارٹی جیت نہ سکے۔ اس اہتمام کے طفیل آئی جے آئی کو قومی اسمبلی میں 106نشستیں مل گئیں جبکہ پیپلز پارٹی کے عوامی جمہوری اتحاد کو 44سیٹوں تک محدود کر دیا گیا، حق پرست پندرہ سیٹیں لے گئے۔اس طرح 1990کے الیکشن کے بعد نواز شریف کو وزیر اعظم بنا دیا گیا، غلام حیدر وائیں پنجاب میں وزیر اعلیٰ بن گئے اس مرتبہ سندھ سے بھی پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ نہ بننے دیا گیا حالانکہ پیپلز پارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی تھی۔ سندھ میں ضیاءالحق ثانی کے طور پر جام صادق علی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا حالانکہ جام کے پاس صرف ایک سیٹ تھی لیکن بندوبست کرنے والوں نے ادھر ادھر سے لوگوں کو جمع کرکے جام صادق علی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ جام صادق علی کو جو کام سونپا گیا تھا اس نے دو ہاتھ آگے نکل کر وہ کام کیا۔اس دور میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے علاوہ عام کارکنوں پر بھی زمین تنگ کر دی گئی۔یہ ظلم اندرون سندھ بہت زیادہ ہوا، اندرون سندھ میں بسنے والے ظلم کی یہ داستانیں کسے سناتے کہ جام صادق علی کی کابینہ میں ڈھنگ کی ساری وزارتیں ایم کیو ایم کے پاس تھیں۔سندھ کے بلدیات، داخلہ، خزانہ اور تعلیم سمیت اہم محکمے انہی حق پرستوں کے پاس تھے جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔ چونکہ 1990میں بےنظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی کراچی اور حیدر آباد میں بدامنی کا کھیل شروع ہو گیا تھا اس لیے یہ کھیل بڑھتا گیا، لسانی بنیادوں پر فسادات بڑھتے چلے گئے۔ حیدر آباد کا پکا قلعہ، جو عالمی سطح پر ثقافتی ورثہ ہونا چاہئے تھا، ایک پارٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ جام صادق علی کے زمانے میں پیپلز پارٹی نشانہ بنی رہی لہٰذا ابتدا میں فسادات یا بدامنی کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہوسکا۔سنا ہے کہ مبینہ طور پر جنرل اسلم بیگ کی بھی یہی خواہش تھی۔ 1992 میں جب فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز جنجوعہ تھے تو اس وقت پکا قلعہ آپریشن ہوا۔پکا قلعہ اگرچہ سندھ کے قدیم حکمرانوں نے بنایا تھا مگر یہ قلعہ ہجرت کرکے آنے والوں کے حوالے کر دیا گیا۔اس قلعہ میں بسنے والے دہشت گردوں نے قلعہ سے نکل کر پورے حیدر آباد میں دہشت گردی کی۔ یہ دہشت گردی پھیلی تو اس نے کراچی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس دوران ایم کیو ایم میں بغاوت بھی ہوئی اور انہوں نے اپنے ہی چیئرمین عظیم احمد طارق کو موت کی وادی میں اتار دیا۔انہی دنوں ایم کیو ایم کا قائد عباسی شہید اسپتال میں داخل ہوا،مبینہ طور پر اسے گولی لگی تھی۔ جام صادق علی نے اُس کواسپتال میں مشورہ دیا کہ ’’آپ کو مار دیا جائے گا، آپ بھاگ جائو ‘‘ایم کیو ایم کے قائد کے بھاگنے میں جام صادق علی کی پوری مدد شامل تھی۔ 1990سے 1993تک نواز شریف پہلی مرتبہ وزیر اعظم رہے۔ اسی دوران 1992میں چاروناچار آپریشن پکا قلعہ شروع کرنا پڑا۔چونکہ جام صادق علی کی کابینہ کے اہم اراکین کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا لہٰذا انہوں نے اس آپریشن کے دوران اپنے ڈھنگ کے بندے بچا لیے، جب ٹارگٹ کلرز کو محفوظ راستہ ملا تو جنرل آصف نواز جنجوعہ اور نواز شریف کے مابین ٹھن گئی۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کراچی حیدر آباد میں دہشت گردوں کے خلاف اصل آپریشن اس وقت ہوا جب ملک کے وزیر داخلہ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر تھے۔یاد رہے کہ ان دنوں کراچی پولیس کے سربراہ شعیب سڈل تھے، شعیب سڈل نے کراچی میں دل وجان سے ملک کے لیے کام کیا،شعیب سڈل اور جنرل (ر)نصیر اللہ بابر کے نام سے دہشت گرد کانپتے تھے اس آپریشن کے بعد کراچی میں بہت سکون ہوا۔

کوشش کر رہا ہوں کہ سندھ سے متعلق درست حقائق لکھ سکوں مگر کچھ لوگ اسے بھی تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ 1947میں ہجرت کرکے آئے وہ پنجاب میں تو پنجابی بن گئے، جو خیبر پختونخوا میں گئے وہ وہاں کا حصہ بن گئے مگر کراچی والےابھی تک خود کو مہاجر کہلوا رہے ہیں۔یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ 74برسوں بعد بھی کوئی خودکو مہاجر کہے؟ انہیں چاہئے تھا کہ وہ خود کو سندھ کی دھرتی کے باشندے کہلواتے، امریکہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں سب ہجرت کرکے گئے مگر وہ لوگ خود کو انہی ملکوں کے باشندے کہلواتے ہیں کوئی امریکی خود کو مہاجر نہیں کہتا اور نہ ہی کوئی آسٹریلوی خود کو مہاجر کہلواتا ہے۔ اسی طرح فجی، مراکش، مصر اور ملائیشیا کی طرف ہجرت کرنے والوں نے خود کو مہاجر نہیں کہلوایا۔

کراچی میں ہجرت کے بعد،آ کر بسنے والے پڑھے لکھے لوگ تھے، انہیں چاہئے تھا کہ وہ خود کو سندھ دھرتی کا باسی ثابت کرتے اور سندھ کے دیہات میں بسنے و الوں کو جاگیرداروں، پیروں اور وڈیروں کے چنگل سے آزاد کرواتے، عام سندھیوں کو پڑھاتے تاکہ وہ بھی ترقی کرتے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ لسانی بنیاد پر تقسیم ختم ہو جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ آج سندھ کا وزیر اعلیٰ کوئی اردو بولنے والا ہوتا، جیسے پنجاب میں نواز شریف، غلام حیدر وائیں اور منظور وٹو وزیر اعلیٰ بن گئے، یہ لوگ بھی تو ہجرت کرکے آئے تھے۔ (جاری ہے )

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)