سر جھکا ہے، جو بھی ارباب مے خانہ کہیں

May 23, 2022

اس وقت پاکستان کی صورتِ حال ایسی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ تحریک عدم اعتماد کے جمہوری طریقہ سے سابق وزیر اعظم کی حکومت گرانے اور نئی مخلوط حکومت بنانے والی اتحادی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی بے بس نظر آ رہی ہے اور برملا کہہ رہی ہے کہ جس کو حکومت کرنی ہے ، وہ آجائے ، جس کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے ، وہ طاقت ور حلقے بھی ماضی کی طرح کوئی فیصلہ یا مہم جوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اگرچہ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک بڑی سیاسی اور عوامی تحریک بنالی ہے لیکن ان کے پاس بھی موجودہ بحران سے نکلنے کا کوئی واضح پروگرام نہیں ہے ۔ وہ بس عوامی دبائو بڑھا رہے ہیں ۔ سیاسی قوتوں نے اگرخود فیصلہ نہ کیا یا بحران کا سیاسی حل نہ نکالا جو کہ الیکشن ہی ہے تو فیصلہ کرنے والی کچھ اور قوتیں اندرونی بھی ہو سکتی ہیں اور بیرونی بھی ۔ بقول مجنوں گورکھ پوری،

سرجھکا ہے ، جو بھی ارباب مے خانہ کہیں

وزیر اعظم میاں شہباز شریف ، ان کی کابینہ کے ارکان اور ان کے اتحادی اپنی مخلوط حکومت کی چار مشکلات کا خاص طور پر ذکر کر رہے ہیں ۔ نمبر 1شدید معاشی بحران ہے ،جس کی ذمہ دار سابق حکومت ہے ۔ نمبر 2عمران خان نے بہت زیادہ سیاسی دبائو بڑھا دیا ہے ۔ نمبر 3عدالتوں کے فیصلے ان کے خلاف آ رہے ہیں اور نمبر 4ادارے ان کے ساتھ اتنا تعاون نہیں کر رہے ، جتنا انہوں نے بقول ان کے عمران خان کے ساتھ کیا ۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیںکہ ان کی حکومت کے ہاتھ پاوں باندھ کر تیرنے کے لئے کہا جا رہا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو گہرے پانیوں میں اترنے کی کیا ضرورت تھی ؟ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) میں شامل جماعتوں کی قیادت بہت پہلے سے یہ کہہ رہی ہے کہ عمران خان کی حکومت نے معیشت کو تباہ کر دیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو معاشی بحران کا مکمل ادراک تھا ۔ اس بحرانی معیشت کو سنبھالنے کا فیصلہ انہوں نےخود کیا۔ ان کے لئے یہ حالات اچانک پیدا نہیں ہوئے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان کے پاس اپنی حکومت گرنے کے بعد عوام کے پاس جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔ وہ سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں ۔ انہیں اپنی سیاسی بقاکے لئےہر حال میں سیاست کرنی ہے ۔ میں نے اپنے ہوش و ہواس میں ایسے کسی سیاسی لیڈر کو نہیں دیکھا ، جس نے اتنی بڑی تعداد میں اور روزانہ کی بنیاد پر جلسے کئے ہوں اور جلسوں میں لوگوں کی غیر معمولی تعداد ہو ۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ان کا بیانیہ جیسا بھی ہو ، لوگوں میں اسے بے پناہ پذیرائی ملی ہے ۔ اس بیانیے کو آسانی سے رَد بھی کیا جا سکتا ہے اور اسے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ پروپیگنڈا مہم بھی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیانیے کی مقبولیت کا ابھی تک کوئی توڑ نہیںنکالا جا سکا ۔ فی الحال حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے ایک سیاسی تحریک بنا دی ہے ،جس کی عمر اور اثرات کا ابھی درست تعین نہیں ہو سکتا ۔ شہباز شریف حکومت پر اس تحریک کا دبائو ہے اور رہے گا ۔ اسی حقیقت کے ساتھ موجودہ حکومت کو چلانا ہو گا ۔

تیسری بات عدلیہ کے حالیہ فیصلوں کے بارے میں ہے ۔ تین حالیہ فیصلے قابل ذکر ہیں ۔ ان میں پہلا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 63۔ اے کی تشریح کے لئےصدارتی ریفرنس پر ہوا ، جس میں کہا گیا کہ منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہو گا ۔ عدالت نے دوسرا فیصلہ ایک سوموٹو کیس میں کیا ، جس میں حکم دیا گیا کہ نیب اور ایف آئی اے میں ہائی پروفائل کیسز کے تحقیقاتی افسروں کے تبادلے نہیں کئے جائیں گے ۔ تیسرا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے ، جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخابات میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی ارکان کو نااہل اور ان کی نشستوں کو خالی قرار دیا گیا ہے ۔ ان تینوں فیصلوں سے یقینی طور پر میاں شہباز شریف کی مخلوط مرکزی اور پنجاب حکومت کمزور ہوئی ہے ۔ حکمران اتحاد کی طرف سے ان فیصلوں پر تنقید ہو رہی ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں عدلیہ اپنا تاریخی کردار ادا کر رہی ہے ۔ فیصلوں کو آئین اور قانون پر پرکھنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے لیکن موجودہ حالات بھی تو اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ یہی عدلیہ ہے ، جس نے عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کےلئے آخری آئینی طریقہ استعمال کیا ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو عدلیہ کے بارے میں عام لوگوں سے زیادہ معلوم ہے ۔ یہ دیکھتے ہوئے ہی انہوں نے حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ چوتھی اور آخری بات ، جس کا اتحادی حکمران بار بار تذکرہ کر رہے ہیں ، وہ اداروں کا رویہ ہے ۔ ان کا اشارہ یقینی طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے ۔ اسی اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ حکمراں اتحادی چند دن پہلے تک تعریف کر رہے تھے اور ان کے نیو ٹرل ہونے کو فخر سے بیان کر رہے تھے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے رویوں سے دونوں حکمران بڑی سیاسی جماعتیں سب لوگوں سے زیادہ واقف ہیں ۔ حکومت بناتے ہوئے یہ بات بھی ان کے مدنظر رہی ہو گی ۔ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو سیاسی دبائو بڑھانے سے کیوں روکے گی یا معاشی بحران کا واسطہ دے کر اسے خاموش کیوں کرے گی ؟ شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کو ان چاروں مشکلات اور ان سے وابستہ حقائق کے ساتھ حکومت چلانی ہو گی ۔ معاشی بحران بدترین ہو رہا ہے ۔ عمران خان سیاسی تحریک سے دستبردار نہیں ہو گا ۔ عدالتیں جو اپنی دانست میں آئین اور قانون کے مطابق سمجھیں گی ، وہ فیصلے دیں گی۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا جوہر بھی یکدم تبدیل نہیں ہو گا ۔ شہباز شریف اور ان کے اتحادی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان حالات میں کام نہیں کر سکتے تو انہیں پھر یہ نہیں کہنا چاہئے کہ جس کو حکومت میں آنے کا شوق ہے ، وہ آجائے ۔ یہ غیر سیاسی قوتوں کو خود دعوت دینے والی بات ہے ۔ سیاست دان اگرتمام حقائق جانتے ہوئے اس طرح کی بے بسی کا اظہار کرتے رہے تو پھر آنے والے اپنے انداز سے آئیں گے ۔ پھر ارباب مے خانہ جو بھی کہیں ، سرجھکانا ہو گا ۔ اگر اس صورتِ حال سے بچنا ہے تو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے تاکہ سیاسی عمل بھی پٹڑی سے نہ اترے اور موجودہ حکمران بھی اس بحران سے بری الذمہ ہو جائیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)