ملک، معاشرہ جمہوریت اور یہ سیاستدان

October 27, 2013

مردے پر جتنا چاہو ماتم کرلو وہ زندہ نہیں ہوسکتا اور یہی حال مردہ ضمیروں کا ہے۔ عوام دشمن مہنگائی پر لکھتے ہوئے مجھے تو شرم آنے لگی ہے لیکن جن کو آنی چاہئے وہ ٹس سے مس نہیں ہورہے بلکہ الٹا بڑھکیں مار کر ان باتوں کا کریڈٹ لے رہے ہیں جن کا وجود ہی کہیں نہیں مثلاً اس جملے کا مطلب کم از کم میرے پلے تو نہیں پڑا کہ........ ’’جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں‘‘۔ اب تک غریب مار کے علاوہ اس حکومت نے کیا ہی کیا ہے؟ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے خاتمہ سے لے کر ڈرون حملے روکنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے یا لوٹی ہوئی دولت واپس لانے تک وہ کون ساوعدہ ہے جو پورا ہوا یا اس کا امکان بھی دور دور تک دکھائی دے رہا ہو؟
منافقت ، ڈھٹائی اور عوام کے ساتھ دھوکہ دہی، غلط بیانی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ امریکن اخبار ڈنکے کی چوٹ پر لکھتے ہیں کہ’’پاکستانی حکام خود ڈرون حملوں کی منظوری دیتے رہے‘‘ جواب میں دفتر خارجہ کہتا ہے’’اب ایسا نہیں ہے‘‘۔ کل کوئی اور حکومت ہوگی، امریکن اخبار اگر پھر یہی کچھ لکھیں گے تو یہ دفتر ڈھٹائی سے پھر یہی کچھے کہے گا کہ........ ’’اب ایسا نہیں ہوتا‘‘۔
ادھر اعلیٰ امریکی عہدیدار سے یہ دو ٹوک جملہ منسوب کہ’’ڈرون حملوں پر پالیسی تبدیلی نہیں ہوگی‘‘ اور یہ کہتے ہیں کہ’’ڈرون حملوں کا معاملہ جلد حل ہوجائے گا‘‘۔
مجھے اندازہ ہے کہ سٹیٹ کرافٹ کی پیچیدگیوں کے سبب عوام کو ہر مسئلہ پر اعتماد میں لینا ممکن نہیں لیکن خاموش رہنے اور جھوٹ بولنے میں جو دانش مندانہ سا فرق اور فاصلہ ہے اس کی تو پہچان ہونی چاہئے یا نہیں؟ ظاہر ہے ڈرون حملے دس بیس سال تک تو جاری رہ نہیں سکتے کہ ہر کام کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ امریکن جب مناسب سمجھیں گے اپنی مرضی کے مطابق ڈرون حملے روک دینگے......... آج نہ سہی کل ،کل نہ سہی پرسوں جس کی طرف امریکنوں نے یہ کہہ کر اشارہ دیا کہ ڈرون حملے روکنے کا فیصلہ زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا اوریہی سچ بھی ہے۔ امریکن ہمارے ان حکمرانوں کے نہیں بلکہ’’حقائق‘‘ کے کہنے پر یہ حملے روکیں گے اور اگر یہ ن لیگی حکومت کے دوران ہوگیا تو خوب ہلا گلا، ہنگامہ اور بھنگڑا بازی ہوگی کہ ’’ہم نے ڈرون حملے روک لئے‘‘ حالانکہ سچ یہ ہے کہ جو آٹے کی قیمت میں اضافہ نہیں روک سکتے، وہ ڈرون حملے کیا خاک روکیں گے؟
امتحان میں تو’’بوٹی‘‘ چلنے کا سنا تھا، بچے چھوٹی چھوٹی چٹوں، پرچیوں پر سوالوں کے جواب یا پوائنٹس لکھ کر امتحانی مراکز میں لے جاتے تھے لیکن بین الاقوامی’’امتحانی مرکز‘‘ وائٹ ہائوس میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کو پرچیاں پڑھتے دیکھا تو سوچا کاش تھوڑی محنت کرلیتے، رٹا ہی لگالیتے ۔ یہاں اس بات کی وضاحت نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ ’’بوٹی‘‘ صرف نالائق بچے ہی نہیں چلاتے بلکہ کبھی کبھی قابل طلبہ بھی اس قدر انڈر پریشر آجاتے کہ’’بوٹی‘‘ پر مجبور ہوجاتے ۔ خود میں بھی اس میں ملوث رہا۔ میں حساب کے مضمون میں کمزور لیکن ہسٹری میں اتنا مضبوط تھا کہ خود اساتذہ اعتراف کرتے کہ ہسٹری کے پیپر میں نمبر کاٹنا ممکن نہیں، رسماً کچھ نمبر کاٹ لیتے ہیں لیکن ہسٹری میں بھی میرا ایک پرابلم تھا کہ سن یاد رکھنا میرے لئے بہت مشکل ہوتا سو میں مختلف اہم واقعات کے سال اپنے بائیں بازو پر لکھ کر لے جاتا سو عین ممکن ہے کہ تیسری باری لینے والے تجربہ کار وزیر اعظم نے پریشر کے سبب پرچیوں پر لکھے نوٹس اور پوائنٹس کا سہارا لیا ہو کہ وائٹ ہائوس کے’’امتحانی مرکز‘‘ میں نہ غلطی کی کوئی گنجائش نہ ’’لائف لائن‘‘ کا کوئی رواج۔
میں گھسے پٹے محاوروں سے گریز کرتا ہوں لیکن یہ کہے بغیر گزارہ نہیں کہ پاکستان پر حکومت پھولوں کی سیج نہیں، زہریلے کانٹوں کا ڈبل بیڈ ہے جس کے سرہانوں میں سنگریزے بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان پر حکمرانی ایسے ہی ہے جیسے کسی ایسے شخص کو ننگی پیٹھ بغیر لگام کسی وحشی جنگلی منہ زور گھوڑے پر سوار کردیا جائے جس نے کبھی کسی مریل گدھے کی سواری بھی نہ کی ہو، پاکستان کو ٹریک پر چڑھانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدمی ہتھوڑے کی مدد سے کانچ کا گلدان صاف کرنا چاہے اور کمال یہ کہ صرف سیاستدان ہی نہیں، معمولی سا پڑھا لکھا آدمی بھی اب یہ جان چکا ہے کہ پاکستان گورن ایبل(Gorernable) معاملہ نہیں رہا اور یہ کام کوئی جینئیس سٹیٹس مین لیول کا سیاستدان ہی کرسکتا ہے سو یہ سب اوسط درجہ کے مہم جو یا تو خود کو مدبرین میں شمار کرتے ہیں یا موج میلہ مستی کرنے کہ ستیاناس سے سوا ستیاناس کرکے باہر جا بیٹھیں گے اور چند سال بعد پھر کسی نئے سکرپٹ کے ساتھ نئی واردات ڈالنے پہنچ جائیں گے ورنہ حقیت یہ ہے کہ کوئی جینوئن آدمی اس چیلنج کے نزدیک سے بھی نہ گزرے اور اگر ایسا چیلنج قبول کر ہی لے تو یہ کبھی نہ کہے کہ......... ’’خزانہ خالی ہے، حالات بہت خراب ہیں‘‘ کیونکہ اگر کوئی یہ سب کچھ نہیں جانتا تو وہ احمق ہے اور جانتے بوجھتے آتا ہے تو سمجھوواردات کررہا ہے ورنہ بغیر کسی بہانے کے ٹرن ارائونڈ کرکے دکھائو، بس میں نہیں تو ہینڈز اپ کرو، عوام سے معافی مانگو اور نو دو گیارہ ہوجائو لیکن جیسے جنگجو جرنیل آخری گولی، آخری سپاہی تک لڑتا ہے یہ لوگ آخری سانس تک عوام کی شہہ رگ سے چمٹے رہیں گے۔
پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ گڈ گورننس کیا، ویری گڈ گورننس بھی پاکستان کو نہیں سنبھال سکتی......... صرف، صرف اور صرف بیحد تخلیقی حکومت Creative governanceہی بے سمت ملک و معاشرہ کو واضح سمت دے سکتی ہے اور افسوس صد افسوس روایتی موروثی، کرپٹ، ووٹ بینک کا مارا ہوا سیاستدان اس کا سوچ بھی نہیں سکا۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو گوالوں کو شہر سے مویشی نکالنے کے احکامات اس خوف سے واپس لے لیتے ہیں کہ اگر ایسا کیا گیا تو ضمنی انتخابات میں گوالے انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔ کوئی بنیادی اور بڑی تبدیلی ان کے بس میں ہی نہیں۔
ہمارے دانشور رواروی میں جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے ڈھول پیٹتے ہیں، جمہوریت چلاتے ہیں سیاستدان جبکہ گہرائی میں اتر کر دیکھیں کہ اول یہ جمہوریت ،جمہوریت ہے ہی نہیں اور نہ ہی یہ سیاستدان ،سیاستدان ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے بچوں کی قسم کھا کر بتائیں ا ٓپ خود نہیں جانتے کہ سیاستدانوں کی بھاری ترین اکثریت کس قسم کے جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ ابھی پچھلے دنوں میرا بچپن کا ایک لائل پوریا دوست جو ہاکی کا بہت نامور سابق کھلاڑی ہے، مجھے بتارہا تھاکہ لائل پور کے فلاں سیاستدان نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر اتنے سو کھوکھوں سے پانچ لاکھ روپیہ فی کھوکھا وصول کرکے انہیں اس بات کی گارنٹی دی کہ کوئی انہیں ہاتھ نہیں لگائے گا؟ اکثریت ایسے ہی وارداتیوں کی ہے۔
کیا ایسی جمہوریت اور یہ سیاستدان ملک و معاشرہ کو سمت عطا فرمائیں گے؟ اپنے ملک سے محبت اور ہمدردی ہے تو پہلی فرصت میں ان بنارسی ٹھگوں سے نجات حاصل کرو ورنہ ہماری اولادیں اپنے شناختی کارڈز میں ولدیت کے خانوں پر سیاہی پھیرنے پہ مجبور ہوں گی۔